الوقت - ماہ مبارک رمضان کے آخر میں سعودی عرب کے مدینہ منورہ اور شیعہ آبادی والے شہر قطیف میں ہونے والے سلسلے وار بم دھماکے سے دو سوال ذہن میں گونج رہے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ کیا داعش اپنی مادر وطن کی جانب کوچ کرگئے ہیں؟ یا سعودی عرب کی خفیہ اور سیکورٹی اداروں نے اس طرح کی محدود کاروائیوں کا منصوبہ بنا کر خود کو عالمی برادری کی جانب سے پڑنے والے دباؤ سے نجات دلانا چاہتا ہے کیونکہ عالمی برادری کا خیال ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کا سرچشمہ ہے۔
1- سعودی عرب میں حالیہ ایک سال میں ہونے والے بم دھماکوں پر نظر ڈالنے سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ داعش اور اس گروہ سے وابستہ عناصر ہی سعودی عرب میں مختلف کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ شام اور عراق میں بحران کے آغاز سے ہی داعش کے حامیوں کو خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ داعش کسی بھی سرحد کو نہیں پہچانتا لیکن دہشت گردوں کے حامیوں نے بے دریغ شام اور عراق کو غیر ملکی دہشت گردوں سے بھر دیا۔ اس وقت تو ان ممالک اور حکومتوں نے شام، عراق اور ایران کے حکام کی تنبیہ پر توجہ نہیں دی اور اب داعش کے دہشت گردوں نے اپنے ہی آقاؤں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہماری اس بات کو جو چيز ثابت کرتی ہے وہ انتہا پسند سلفی گروہوں کا سعودی عرب کے اندر مزید مضبوط ہونے اور زیادہ طاقت حاصل کرنے کی توانائی ہے۔ سعودی عرب کے جوانوں میں داعش بہت زیادہ محبوب ہے۔ مشرق وسطی میں سلفی انتہا پسند گروہ کا مرکز سعودی عرب سمجھا جاتا ہے۔ داعش کے بہت زیادہ عناصر کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور سعودی عرب کی جانب سے عراق و شام اور دیگر ممالک میں سرگرم داعش کے دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب کے اندر ہی اس طرح کے حادثات کے لئے مقدمہ فراہم ہوا ہے۔ یعنی سعودی عرب کی جانب سے ڈالا گیا بیج اب کونپل نکال رہا ہے اور اگر ایسے ہی جاری رہا تو ایک دن یہ تناور درخت میں تبدیل ہو جائے گا۔
2- دوسرے سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ جب دنیا میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہو گیا اور عالمی برادری، صلح و امن کے بارے میں تحقیقات کرنے والے ادارے اور مراکز، عالمی میڈیا کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ سبھی سعودی عرب کی جانب انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اس موضوع نے سعودی حکام کو خواب غفلت سے بیدار کر دیا۔ انہوں نے عالمی برادری اور دنیا کی زبان کرنے کے لئے تدبیر کرنی شروع کر دی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری میں اپنے بگڑے چہرے کو صحیح کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس بنا پر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سعودی عرب کے خفیہ اور سیکورٹی اداروں نے ایک مکمل خفیہ منصوبہ آمادہ کر لیا اور اس پر عمل در آمد بھی شروع کر دیا ہے تاکہ دنیا کی توجہ ہٹا سکیں اور یہ بتا سکیں کہ سعودی عرب خود بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے لیکن پوری دنیا کو یہ پتا ہے کہ میں پھیلے انتہا پسندی کا مرکز سعودی عرب ہی ہے اور ڈھاکہ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے میں مارا گیا دہشت گرد، سعودی عرب کے ایجنٹ اور ہندوستان میں سلفیوں سربراہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا شاگرد تھا۔