الوقت - جنگ عراق کے بارے میں برطانیہ کی سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے منظرعام پر ہونے سے پہلے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ سر جان شلكوٹ نے کہا ہے کہ ان کی رپورٹ کے بعد مستقبل میں اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت محتاطانہ جائزے اور سیاسی سوجھ بوجھ سے کی جائے گی۔
شلكوٹ رپورٹ بدھ کو جاری کی جا رہی ہے۔ سر جان شلكوٹ نے بتایا کہ رپورٹ میں حکام اور اداروں پر سخت تنقید کی گی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو امید ہے کہ اس رپورٹ سے ان 179 برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ کو ان سوالات کے جواب مل پائیں گے جو 2003 سے 2009 کے درمیان عراق میں مارے گئے۔
سر جان شلكوٹ نے کہا کہ اس رپورٹ سے بہت زیادہ سبق حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن سب سے اہم بات مستقبل کے سلسلے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ انكوائری رپورٹ ان فیصلوں کو قابل اعتماد طریقے پر پیش کرتی ہے جن کے سبب برطانیہ نے امریکا کے ساتھ عراق جنگ میں شرکت کی تھی۔
26 لاکھ الفاظ کی اس رپورٹ کو تیار کرنے میں سات سال کا وقت لگنے کے بارے میں سر شلكوٹ نے کہا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی۔
انكوائری رپورٹ میں 100 گواہوں میں ٹونی بلیئر بھی شامل تھے اور وہ دو بار اس انكوائري بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ بلیئر جنگ عراق کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔
جنگ عراق میں مارے گئے برطانوی فوجیوں کے خاندانوں کو یہ رپورٹ پہلے دستیاب کرا دی جائے گی لیکن بہت سے فوجیوں کے خاندانوں نے رپورٹ کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا ہے کہ اس میں حقائق پیش نہیں کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے عراق جنگ کے بارے میں بارہا جھوٹ بولا تھا۔