الوقت - کویت میں یمن کے جاری امن مذاکرات پر ایک نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ میدان جنگ سے مذاکرات کی جانب واپسی سے حالات کسی بھی طرح تبدیل نہیں ہوئے بلکہ کویت مذاکرات طولانی تو ہوئے لیکن مذاکرات کے نتائج پر کسی بھی طرح کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کویت میں یمن کے امن مذاکرات پوری آب و تاب سے جاری ہیں جہاں ایک طرف یمن کا قومی وفد ہے اور دوسری جانب ریاض کا حمایت یافتہ وفد۔ ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا ہے کہ یمن کے عوام کب سکون کا سانس لیں گے، کب ان پر سعودی عرب کے طیارے بم گرانا بند کریں، بحران یمن کو ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو گیا لیکن ابھی تک اس کا کوئی منطقی حل نہیں نکل سکا۔
ایک طرف یمن کی مشترکہ فوج نے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کی پیشرفت، مآرب اور الجوف صوبوں میں مسلسل جاری ہے۔ فوج نے مآرب صوبے کے مغرب میں واقع نھم حریب کے اسٹرٹیجک علاقے کے جبل فاطم پر اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ اسی کے ساتھ فوج نے قبطیہ تحصلی کے جبل الجالس کے اسٹرٹیجک علاقے پر بھی اپنا قبضہ مضبوط کر لیا ہے۔ یہ العند چھاونی تک پھیلے ہوئے اسٹرٹیجک علاقے کا ہی حصہ ہے۔ یمن کے جنوبی صوبے لحج میں ہی امریکی فوجیوں کا اڈہ ہے۔
دوسری جانب یمن پر سعودی عرب کی جانب سے مسلط کردہ جنگ پر پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ ہے جس کی وجہ سے ریاض مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوا ہے۔ در حقیقت سعودی عرب نے لحج، الجوف اور مآرب صوبوں میں اپنی وسیع فوجی توانائی کا مظاہرہ کیا، اس طرح سے کہ سعودی عرب کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ کمانڈر علی محسن احمر کی قیادت میں ان صوبوں کے بعض قبائل نے ابین، شبوہ، لحج اور مآرب صوبوں سے سیکڑوں جوانوں کا انتخاب کیا اور ان کو بتایا کہ تم سب کو فوجی ٹریننگ دی جائے گی۔ ریاض کے ایک قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ ان جوانوں کو صنعا پر وسیع حملے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تحریک انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے سربراہ صالح الصماد کے اس بیان کی تصدیق ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب، یمن کے خلاف وسیع جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے یمنی مرکز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے کے دوران یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں میں یمن کے ستّائیس ہزار عام شہری شہید و زخمی ہو ئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق یمن پر سعودی حملوں میں نو ہزار، تین سو، چھیاسٹھ عام شہری شہید اور سترہ ہزار، چھے سو ترسٹھ دیگر زخمی ہو ئے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا جا رہا تاکہ یمن میں جاری مذاکرات کو ناکام بنایا جا سکے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنے فوجیوں کے بلانے کا اعلان کر دیا۔ ابھی اس اعلان کو کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ مغرب نے بھی یمن جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ یہ سب سعودی اتحاد میں شامل ملکوں کے آپسی اختلافات کا نتیجہ ہے۔ یمن پر جنگ میں شامل سعودی اتحاد میں اخلافات کچھ کم نہیں ہیں جیسا کہ یمن کے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی جانب سے متعین کئے گئے کمانڈر العواضی کے مسلح افراد کے ہاتھوں قتل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں منصور ہادی کے حامیوں کا قتل، انہیں اختلافات کا نتیجہ ہے۔ جنوبی یمن کے صوبے لحج کے گورنراحمد حمود جریب نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے حملوں میں یمنی شہریوں کے ہونے والے قتل عام کے باوجود، بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ان حملوں کو رکوانے کے لئے کوئی موثر اقدام عمل میں نہیں لایا جا رہا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یمن میں سعودی عرب کے جرائم کا جائزہ لیں گی اور آل سعود کے غیر انسانی جرائم کی روک تھام کریں گی۔
دوسری جانب یمن کے سابق صدر علی عبد اللہ صالح نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی مذاکرات کے لئے ریاض نہیں جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی بھی فریق سے مذاکرات کے لئے سعودی عرب نہیں جائیں گے چاہے یمن میں جنگ دسیوں برس جاری رہے۔
یمن امن مذاکرات کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا وقت سے پہلے ہوگا تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصار اللہ اپنے بھاری ہتھیار حوالے کر دے گی؟ کس کے حوالے کیا جائے گا ہتھیاروں کو؟ کون یہ ضمانت دے گا کہ سعودی عرب اپنی حرکت نہیں دہرائے گا۔ ان سب سوالوں کا صرف ایک ہی جواب ہے، یمنیوں کا ہاتھ سب سے بلند۔ یعنی ملک کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ یمنی عوام کو کرنا ہے اور یمن کے داخلی امور میں کسی بھی بھی مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ یمن کا بحران جلد حل ہونا چاہئے یہ یمن اور علاقے کے مفاد میں ہوگا۔