الوقت - عراق کے فلوجہ شہر میں داعش کے خلاف مہم شروع ہوتے ہی بین الاقوامی اور عرب میڈیا کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ یہ فوجی مہم نے اپنے پہلے مرحلے کے کچھ مقاصد و اہداف حاصل کر لئے۔ ان سب کے باوجود مشترکہ فوج کی پیشرف پر غیر ملک اور ملکی میڈیا کا ہجوم ہو گیا۔ ابھی میڈیا کا شور و غوغا جاری ہی تھا کہ سعودی عرب کے وزیر حارجہ عادل الجبیر نے ایک بیان میں ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر عوام رضاکار فورس فلوجہ کی آزادی کی مہم میں مشارکت نہ کرے تو یہ مہم سالم رہے گی۔ الوقت نے اس موضوع پر صوبہ الانبار کی نجات کونسل کے سربراہ شیخ حمید الہایس سے گفتگو کی۔
الوقت : موجود وقت میں رضاکار فورس کے خلاف شدید پروپیگینڈے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کبھی رضاکار فورس پر عام شہریوں پر بمباری اور ان کے قتل کا الزام عائد کیا جاتا اور کبھی ان کیا کامیابیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رضاکار فورس میں بڑی تعداد مین اہلکار مارے گئے ہیں۔ اس میڈیا وار پر آپ کا کیا رد عمل کیاہے؟
شیخ الہایس : سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ہی غلط ہے۔ رضاکار فورس، فوج کا ہی حصہ ہے جو مسلح فوج کے کمانڈروں کی جانب سے جاری براہ راست احکام کی پیروی کرتی ہے۔ فوج کے ساتھ رہی اور ہر کاروائی میں برابر کی شریک رہی۔ رضاکار فورس، عام شہریوں کی حفاظت کرتی ہے اور ان کی ممکنہ مدد کرتی ہے۔ ہم ان حملوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور ان کا مقابلہ کریں گے کیونکہ ہم اس کا حصہ ہیں اور کسی بھی غیر ملکی میڈیا کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے وہ رضاکار فورس کے جوانوں پر بے تکے حملے کریں۔
الوقت : کیوں عرب ممالک خاص طور پر خلیج فارس کے پڑوسی ممالک اس بات پر اصرار کر ہیں کہ اس مہم میں ایرانی فوجی مشیروں خاص طور پر قدس بریگیڈ کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی شرکت نہ کریں، جبکہ عراق نے بارہا کہا ہے کہ ایرانی مشیروں کی موجودگی کے مثبت اثرات برآمد ہوئے؟
شیخ الہایس : سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ اگر رضاکار فورس (الحشد الشعبی) نہ ہوتی، ان کی حکومتیں تباہ ہو جاتیں، قاسم سلمانی، عراقی حکومت کی درخواست پر عراق آئے ہیں اور اگر ان کو اس بات پر اعتراض ہے تو ان کو ہماری مدد کرنی چاہئے تھی تو ہم بھی ان کا شکریہ ادا کریں گے ، لیکن یہ سب کام مڈیا کا پرپیگینڈا ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
الوقت : رضاکار فورس کی محبوبیت معاشرے میں کیسی ہے؟ عراق اور خاص طور پر دانشمند طبقہ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شیخ الہایس : اگر رضاکار فورس نہ ہوتی تو عراق کے بہت سے شہر ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ عوام میں الحشد الشعبی کو بہت محبوبیت حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم رضاکارفورس کی قیادت کے دایرے میں توسیع کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں تمام عراقی گرہوں کو شامل کیا جانا چاہئے تاکہ تمام بہانے ختم ہو جائیں۔
الوقت : دہشت گرد گروہ داعش کے چنگل سے فلوجہ کی آزادی کی اہمیت کیا ہے، چاہئے دار الحکومت یا موصل سٹی ؟
شیخ الہایس : فلوجہ دہشت گرد گروہ داعش کا ٹھکانہ اور داعش کا ہیڈکواٹر ہے۔ اسی علاقے سے خودکش حملہ آوروں اور کار بموں کو دار الحکومت بغداد بھیجا جاتا ہے، اسی لئے فلوجہ کی آزادی بغدا کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہوگي اور علاقہ مزید پرامن اور مستحکم ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ فوج جلد ہی فلوجہ کو آزاد کر لے گی اور انشاء اللہ یہ موضوع ختم ہو جائے گا۔ بعض افراد کے تصور کے برخلاف فلوجہ کی آزادی میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔