الوقت - برطانیہ کی ایک خاتون دانشور نے اسرائیل کی پالیسیوں پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کے تین لاکھ ڈالر کے انعام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اسرائیلی اخبار يديعوت احارنوت نے لکھا کہ برطانیہ کی مشہور پروفیسر ۔ كیتھرن ہال نے جمعرات کو ایک نئی کارروائی کرتے ہوئے جو ظاہری طور پر اسرائیلی حکومت کے بائیکاٹ کے لئے برطانوی کارکنوں کی نئی کوشش کا حصہ ہیں، کہا کہ تل ابیب کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ اسرائیل سے یہ ایوارڈ نہیں لے سکتیں۔ كیتھرن ہال، لندن یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں جنہوں نے ڈن ڈیوڈ ادارے کے تین لاکھ ڈالر لینے سے انکار کی وجہ آزاد سیاسی فیصلہ قرار دیا۔ اگرچہ اس خاتون دانشور نے اس سلسلے میں مزید تفصیلات نہیں دیا لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اسرائیل کے بین الاقوامی بائیکاٹ اور اسرائیل میں سرمایہ کاری میں کمی کی تحریک سے متاثر ہے۔
كیتھرن ہال نے فلسطینی یونیورسٹیوں کے لئے برطانیہ کی کمیٹی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ان افراد سے زیادہ بحث اور مذاکرات کرنے کے بعد جو اسرائیل اور فلسطین کے سیاسی مسائل میں مکمل طور غرق ہیں، یہ پتہ چلا کہ ان کے مواقف بہت مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تمام موضوعات کو دیکھتے ہوئے میں نے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاریخ کی یہ پروفیسر اس موضوع پر مزید گفتگو کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔
واضح رہے کہ ڈن ڈیوڈ ادارہ ہر سال دس لاکھ ڈالر کا انعام دیتا ہے۔ ۔ كیتھرن ہال نے 19 ویں اور 20 صدی میں برطانیہ اور برطانوی شاہی حاندان کے بارے میں تحقیق کیا تھا اور اس سلسلے میں وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔