الوقت - موجودہ وقت میں علاقے کے مغربی اور عربی نیز دنیا کے ذرائع ابلاغ پوری شدت سے شام کے صوبہ رقہ کی آزادی اور اس علاقے میں داعش کی سرکوبی کی حمایت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے مسلسل خبروں کو کوریج دے رہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے پہلے فوجی اور رضاکار فورس کے ذریعے نصرہ فرنٹ، احرار الشام، جیش الاسلام اور جیش الفتح سمیت متعدد دہشت گرد گروہوں سے صوبہ حلب کی آزادی کے موقع پر انھیں ذرائع ابلاغ نے جنوبی حلب کی آزادی کے لئے چلائی گئی مہم کو خلاف ورزی قرار دینے کے لئے اپنی تمام توجہ مرکوز کر دی تھی اور اپنی متعدد رپورٹوں میں اس صوبہ کی صورتحال کو بحرانی دکھانے کی کوشش کی تاکہ اس صوبے میں فوج کی پیشرفت کو روکنے کے لئے ایک عالمی اجماع بشار اسد کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیار کریں۔ اگر اس مسئلے پر ذرا غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ حلب کی آزادی کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ اور میڈیا نے جو ہنگامہ مچا رکھا تھا اس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد فوج کی پیشرفت کو روکنا تھا لیکن آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں رقہ کے موضوع پر ایک خاص نظریہ کارفرما ہے جو رقہ کی آزادی کے لئے چلائی جانے والی مہم کی کھلے دل سے حمایت کر رہا ہے کیونکہ یہاں پر مرکز و محور امریکا ہے جو اس صوبے پر قبضہ کرنے کے بعد کردوں کے ذریعے ترپ کا پتہ حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس سے آگلے سیاسی مذاکرات سے فائدہ اٹھا سکے۔ در حقیقت اس سے پہلے امریکا، شام کے محاذ میں ایک شکست خوردہ کھلاڑی نظر آتا تھا جس پر اس سے اتحادی ملک اور گروہ بھی اعتماد کرنے سے گھبراتے تھے لیکن موجود وقت میں امریکا ایک ماہر کھلاڑی کے طور پر کردوں کے ذریعے شام کی آئندہ سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن کردوں کو اس مسئلے کے حوالے سے پوری طرح ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ امریکا علاقے میں صرف اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور بعید نہیں کہ اپنے مفاد حاصل کرنے کے بعد کردوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے تب کردوں کا حال دھوبی کے کتے کی طرح ہوگا جو نہ گھر کا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا ہے۔ موجودہ وقت میں کرد، رقہ میں پیشرفت کے لئے امریکا کے لئے انسانی ڈھال کی حیثت سے ہیں اور امریکا اس کاروائی میں کسی طرح کا انسانی نقصان برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا اسی لئے امریکا نے کردوں کے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اس موقع سے اپنے مفاد پورے کرنے کے لئے فائدہ اٹھایا۔
فلوجہ شہر کو دہشت گردوں سے آزاد کروانے کی کارروائی پیر کو وزیر اعظم حیدر العبادي کے حکم پر شروع ہو گئی ہے۔ اس آپریشن میں 22 ہزار سے زیادہ فوجی شامل ہیں۔ آپریشن میں فوج، انسداد دہشت گردی کے ادارے، رضاکار فورس، ایئر فورس اور قبائلی جوان شامل ہیں۔ فلوجہ کو آزاد کروانے کا آپریشن چھ جگہوں سے شروع ہوا ہے۔
فلوجہ کے آپریشن کے آغاز سے ہی پی دہشت گردوں کے حامی میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے اس ملک کی فوج اور عوام رضاکار فورس کے خلاف پروپیگینڈے شروع کر دیئے۔ العربیہ اور الجزیرہ جیسے دہشت گردوں کے حامی ذرائع ابلاغ نے جعلی خبروں اور تصاویر جاری کرکے عراق کی رضاکار فورس کے خلاف پوری طرح پروپیگینڈے شروع کر دیئے۔ دہشت گردوں کے حامی ذرائع ابلاغ کی سرگرمیوں کے بارے میں عراقی ذرائع کی رپورٹ اس بات کی علامت ہے کہ فلوجہ کی آزادی کا آپریشن شروع ہونے کے بعد تکفیری دہشت گردوں نے اپنے ایجنٹوں سے مطالبہ کیا ہے کہ رضاکار فورس سے ملتی جلتی وردی پہن کر فلوجہ کے قیدیوں کا قتل عام کریں اور دہشت گردوں کے اس اقدام کی تصاویر لی گئی اور ویڈیو بنائی گئی۔ داعش کے دہشت گردوں نے ان جعلی دستاویزات کو فلوجہ کی سنی عوام سے رضاکار فورس کی انتقامی کاروائی کی حیثیت سے پیش کیا تاکہ اس حساس موقع پر شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلافات پید ہو جائیں۔
داعش نے اسی طرح اپنے جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ ہر علاقے سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد وہاں کے گھروں، مساجد اور سرکاری عمارت کو تباہ کر دیں تاکہ ان جرائم کو عراقی فوج اور عوامی رضاکارفورس کے گلے میں ڈال سکیں۔ دہشت گردوں اور اس کے حامیوں نے اس سے پہلے الرمادی اور تکریت کی آزادی کی مہم کے دوران بھی ایسے ہی پروپیگینڈے کئے تھے لیکن عراقی عوام کی ہوشیاری اور حکمت نے دشمنوں کی سازشوں پر پانی پھیر دیا اور یہ علاقے دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد ہو گئے۔ اس بار میں عراقی عوام پوری شجاعت اور ہوشیاری سے دشمنوں اور اس کے ذرائع ابلاغ کے پروپیگینڈوں کو ناکام بنا دیں گے اور اپنے ملک کے چپے چپے سے دہشت گردوں کو نکال دیں گے۔