ایسے حالات میں کہ جب بہت سے مغربی سیاست داں ، صیہونیوں کی پھٹوں کی طرح کام کرتے ہيں ، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ملکوں میں صیہونیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ غزہ پر صیہونیوں کے وحشیانہ حملوں کے دوران بھی ہم نے دیکھا کہ بہت سے مغربی ملکوں کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں کی حمایت کی ۔ یہی نہيں حالیہ کچھ برسوں میں تو یورپ میں بہت سے سیاست دانوں کو بھی صیہونی مخالف موقف اختیار کرتے ہوئے دیکھا گيا ہے ۔ صیہونی کالونیوں میں بننے والے سامان کا بائکاٹ اور کالونیوں کی تعمیر کی مسلسل مذمت کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ مطلب یہ ہے کہ اب مغربی سیاست دانوں میں بھی ، صیہونی حکومت کی وسیع اور ہمہ گیر حمایت کی ہمت نہيں رہ گئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں اسرائيل نام کی ريڈ لائن کا رنگ دھیرے دھیرے اتر رہا ہے یہاں تک کہ صیہونی حکومت کے روایتی حامی برطانیہ میں بھی ، صیہونیوں کے خلاف سیاست دانوں کی سطح پر موقف کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے ۔ برطانیہ میں صیہونی حکومت کے نئے سفیر نے صیہونی حکومت کے خلاف لیبر پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے برطانوی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے موقف کے خلاف عملی اقدامات کیا جائے ۔ لیبر پارٹی کے سربراہ ، کوربین کو بھی ، حالیہ دنوں میں اپنی پارٹی میں صیہونی مخالف جذبات کے خلاف کچھ نہ کرنے اور حماس و حزب اللہ کو دوست قرار دینے کی وجہ سے سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ جب اسرائیل کے جرائم کے خلاف موقف ، یورپی عوام کا اپنے حکام سے اہم مطالبہ بن جائے گا۔
یورشلم پوسٹ کے مطابق مارک رگو نے ناراض لہجے میں کہا کہ نفرت انگیز تقریر اور صیہونی حکومت کی تنقید کرنے میں فرق ہے۔ ان واقعات پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنے کا ارادہ کرنے والی صیہونی حکومت اب اپنے آقاؤں کی نظر میں بھی کھٹکنے لگی ہے اور یہی وجہ ہے اس کے روایتی حامی نے بھی کنارہ کشی شروع کر دی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ مغربی حکام بھی اپنے عوام کے مطالبات سننے پر مجبور ہو جائے گیں۔ دوسرے الفاظ میں ماضی میں مغربی حکام کے ذریعے صیہونی حکومت کی حمایت میں کھڑی ہونے والی دیوار آہستہ آہستہ کمزور ہو رہی ہی اور گرنے والی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے صیہونی حکام نے مغرب میں صیہونی مخالف اقدامات میں اضافے کی بابت خبردار کیا ہے۔ بہرحال دنیا کے عوام بیدار ہو چکے ہیں اور ان کو پتا ہے کہ یہ حکومت فلسطینیوں پر کتنے مظالم کرتی ہے اور ہماری حکومتیں اس کی حفاظت میں کتنے پیسے خرچ کرتی ہے، عوام کا مطالبہ ہے کہ صیہونی حکومت پر خرچ ہونے والا ملک کے عوام پر خرچ کیا جائے تو کسی حد تک غربت اور بے روزگاری کو کم کیا جاسکتا ہے۔