الوقت - سعودی عرب کے قریبی ذرائع ابلاغ کے مطابق یمن میں القاعدہ سے وابستہ سیکڑوں دہشت گرد سعودی عرب کی سربراہی میں بنے نام نہاد اتحاد کے حملوں میں ہلاک ہوئے لیکن داخلی ذرائع اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں یہ کاروائی اس لئے ہوئی ہے کہ القاعدہ سے وابستہ دہشت گردوں کو یمن سے باہر نکالا جا سکے اور یہ ایک سیاسی معاہدے کے تحت انجام پا رہا ہے نہ کہ فوجی طاقت کا کمال ہے ۔
العربیہ ٹی وی چینل کی خبر کے مطابق ( ۲۴ اپریل کی ادھی رات میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی فوج نے القاعدہ سے وابستہ 800 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ یمن کی ایک تیل سے مالامال بندرگاہ پر ہوا جسے القاعدہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے) اس خبر کے مطابق یمنی اور اماراتی افواج نے المکلا نامی بندرگاہ پر حملہ کر کے ۸۰۰ سے القاعدہ دہشت گردو کو ہلاک کیا اور اس بندرگاہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ واضح رہے یمن کا ۸۰ فیصد تیل اسی بندرگاہ سے نکلتا ہے۔
پجھلے ایک سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عرب اتحاد کے فوجیوں نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا اور ان پر حملہ کیا ہے جبکہ اس سے پہلے کئی مرتبہ یہ خبر سامنے ائی تھی کہ القاعدہ اور عرب اتحاد کی فوج یک دوسرے کے تعاون سے یمن میں کاروائی انجام دے رہی ہے۔ دو مہینے پہلے بی بی سی کے ایک صحافی کی شائع کردہ ریورٹ میں کچھ ایسا ہی کہا گیا ہے۔ اس صحافی نے یمن کے جنگ زدہ علاقے تعز کا دورہ کیا تھا جس کے بعد یہ کہا تھا کہ ( یمن میں امارات کی فوج اور القاعدہ کے جنگجوؤ دونوں ساتھ مل کر تحریک انصاراللہ کے خلاف فوجی کاروائی کر رہے ہیں)۔
سعودی عرب کی تمام کوششوں کے باوجود داخلی ذرائع ابلاغ اس خبر کی تردید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عرب اتحاد کی افواج نے القاعدہ جنگجوؤں پر حملہ کیا ہے بلکہ انہیں المکلا سے فرار پر مجبور کرنا سیاسی معاہدے کے تحت ہوا ہے۔ یمن کے سیاسی تجزیہ نگار ھیکل بافنع لکھتے ہیں کہ جب مین نے سنا کے عرب اتحاد کی فوجیں امارات کی قیادت میں المکلا کو القاعدہ کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو مجھے خوشی محسوس ہوئی لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ صرف ایک سیاسی معاہدے کے تحت ہوا ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ شاہ سلمان مجھے یہ بتائیں کہ کیا ان کے پاس وہ تصویر موجود ہے جس میں القاعدہ کے ۸۰۰ جنگجوؤں کو انھوں نے ہلاک کیا ہے یا وہ تصویر جس میں ایرانی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہو ؟ ان کے مطابق کم از کم ۵۰۰ دہشت گرد جو حضرموت نامی علاقہ سے فرار ہوئے تھے وہ مآرب شہر میں ہتھیاروں کے ساتھ موجود ہیں اور پھر وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ کوئی کامیابی نہیں ہے کہ ۱۰ سے ۲۰ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جائے اور باقی سیکڑوں دہشت گرد مغربی یمن کی جانب اپنے اسلحے کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب رہے، یہ ایک سیاسی کھیل لگتا ہے۔
انگلینڈ کے معروف صحافی ایونا کاریگ جو ۱۰ سال سے یمن کے مسائل کو نزدیک سے دیکھ رہے ہیں لکھتے ہیں (جعار اور زنجبار جیسے جزیروں کے دفاع میں ۲۰۱۱ سے ۲۰۱۲ کے درمیان القاعدہ کے ۵۰۰ افراد ہلاک ہوئے اور عرب اتحاد کے فوجیوں نے ۱۲ گھنٹے میں ۸۰۰ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ سب کے سب فرار کر رہے تھے یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ بھی خبر سامنے آئی ہے کہ نہ دہشت گردوں کو اور نہ ہی ان کے کسی جنگی ساز و سامان کو کسی قسم کا نقصان پہچا ہے۔
اور پھر یہ ممتاز صحافی بھی کہتے ہیں کہ القاعدہ نے اپریل میں منصور ھادی کی حکومت سے معاہدے کے تحت المکلا پر قبضہ کیا تھا اور اب معاہدے کے تحت وہاں سے نکل گئے ہیں۔