الوقت - ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا چار عشرے کا وقت ہو رہا ہے، سبھی کو یہ یقین ہے کہ تہران کا دفاعی پروگرام مذاکرات کے قابل نہیں ہے۔
اس کے باوجود امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے ایک بار پھر ایران کی میزائل توانائی کے بارے میں گفتکو کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے دفاع کے لئے ایرانیوں کے مضبوط ارادے کو امریکی حکام صحیح طریقے سے سمجھ نہیں سکے ہیں۔
جان کیری نے گزشتہ ہفتے بحرین کے دار الحکومت منامہ کے اپنے دورے کے دوران یہ کہا کہ واشنگٹن، ایران کے میزائل تجربات کے خلاف خلیج فارس کے ساحلی ممالک کی حمایت کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی، ایران سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس موضوع کے لئے پر امن طریقے کا انتخاب کرے۔ امریکا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کو سب پر یہ واضح کرنا چاہئے کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لئےتیار ہے جس کے اہداف و ومقاصد کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔
ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل قدر ایف، ایچ کے تجربے کے بعد جو 2000 ہزار اور 1700 کیلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہیں، مغرب نے ایران کے خلاف نئے الزامات عائد کرنا شروع کر دئے۔ ایران سے مذاکرات کرنے والے چار ممالک کی حیثیت سے برطانیہ، فرانس، امریکا اور جرمن نے سیکورٹی کونسل کو خط لکھ کر دعوی کیا کہ ایران کی جانب سے میزائل کا تجربہ سیکورٹی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی ہے ۔ ان ممالک نے سیکورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ ایران کے اس قدم کا مناسب جواب دے۔
سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر2231 کی خلاف ورزی کا مغرب کا دعوی ایسی صورتحال میں ہے کہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کو قانون طرح سے میزائل کے تجربات سے روکا نہیں جا سکتا۔ میزائل پروگرام سے متعلق قرارداد کی شق میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (( ایران سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے میزائل کے تجربات نہ کرے جو ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کی توانائی رکھتے ہوں)) یہ ایسی حالت میں ہے کہ روس کی مخالفت کے بعد سیکورٹی کونسل ایران کے خلاف کوئی قدم اٹھا نہیں سکی۔ امریکی حکام نے جے سی پی او اے ایٹمی معاہدے کی وسیع تفسیر کرکے ایران پر خلاف ورزی کا الزام لگانے کی کوشش کی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی ایران کی جانب سے میزائل کے تجربے کو اشتعال انگيز قدم قرار دیا اور اس کو جے سی پی او اے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
امریکی صدر کی جانب سے ایران پر ایسی حالت میں جے سی پی او اے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے کہ جے سی پی او اے یعنی مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ سے لے اب تک امریکا نے ایسے اقدامات انجام دیئے ہیں جو ان کے وعدوں کے برخلاف تصور کئے جاتے ہیں۔
دسمبر 2015 میں امریکی کانگریس کی جانب سے ویزے کی منسوخی کے قانون کی منظوری اس کا ایک نمونہ ہے۔ اس قانون کی بنیاد پر پہلی مارچ 2011 کے بعد سے جن افراد نے عراق، شام، ایران اور سوڈان کا سفر کیا ہو، وہ بغیر ویزے کے امریکا کا سفر نہیں کر سکتے۔ تجزیہ نگار اس تجویز کی منظوری کو امریکا کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ملک کے اقتصادی شعبے خاص کر سیاحت کے محکمہ کو کمزور کرنا ہے۔
امریکا کی جانب سے اس قانون کی منظوری پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے متضاد پیغامات موصول ہو رہے ہیں جس کی ایک مثال امریکی کانگریس کے ذریعے ویزے کی منسوخی کے قانون کی منظوری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی کانکریس کا یہ قانون پوری طرح بے معنی ہے کیونکہ کسی بھی ایرانی شہری کا یا جس نے ایران کا سفر کیا ہو اس کا پیرس، سن برنارڈینو یا کہیں اور کے دہشت گردانہ واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس سے پہلے ہی ایران سے مغرب کی دشمنی کی ماہیت کی جانب سے خبردار کیا تھا۔ وہ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں کہ میں نے بارہا متعدد نشستوں میں یہ عرض کیا کہ ایٹمی مسئلہ صرف بہانہ ہے، ایٹمی مسئلہ بھی اگر نہ ہوتا تو وہ دوسرا بہانہ بناتے، انسانی حقوق کا مسئلہ پیش کرتے ، حقوق نسواں کا مسئلہ اٹھاتے، انھوں بہت زیادہ مسائل پیدا کر لئے، گڑھ لئے۔ یہ صرف اور صرف ایران پر دباؤ ڈالنے کا ایک بہانہ ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خلیج فارس کے ممالک کے سربراہوں کے سامنے ایران کے متعلق ایسی حالت میں یہ بیان دیا کہ یہ ممالک خاص کر سعودی عرب مغرب سے ہتھیاروں کی خریداری پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ایران کی نیت اور ایران کے اعتماد کے بارے میں ایسی صورتحال میں بات کر رہے ہیں کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب سمیت علاقے میں اس کے تحادی یمن، عراق اور شام میں دہشت گردوں کی وسیع پیمانے پر حمایت کر رہے ہیں۔
میزائل کے تجربات پر وا ویلا مچانے والے مغربی اور امریکی حکام کا جواب دیتے ہوئے ایرانی حکام نے واضح کر دیا کہ ملک کے دفاعی پروگرام پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، تہران کسی بھی غیر ملکی عناصر کو ملک کے داخلی مسائل میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔
وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے کہا کہ ایران میں میزائلی مشقیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان مشقوں کا مقصد دفاعی توانائی اور آمادگی کو پرکھنا ہوتا ہے۔ انھوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو جان لینا چاہئے کہ فالتو بکواس نہیں کرنی چاہئے اور ان کو فراموشی اور غلط اندازے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ایران نے کبھی بھی ایسے اسلحے تیار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے جو رائج نہیں ہیں اور آئندہ بھی ایسی کوئی کوشش نہیں کرے گا۔ ایران کی مسلح افواج کی جوائنٹ چیف اسٹاف کمیٹی کے ڈپٹی چیرمین بریگیڈئیر جنرل مسعود جزائری کا کہنا ہے کہ ایران کی حکمت عملی دفاعی ہے۔
گرچہ امریکی حکام ظاہری طور پر اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ ایران کا میزائل پروگرام مذاکرات کے قابل ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کے کچھ ذرائع ابلاغ اس کو قبول کر چکے ہیں۔ نیشنل انٹرسٹ ویب سائٹ نے لکھا کہ نہ امریکی صدر کی دھمکی، نہ کانگریس کی پابندیاں، نہ مذاکرات اور نہ کی معتدل افراد کو مضبوط کرنے جیسے کسی بھی قدم سے ایرانیوں کو میزائل پروگرام کو وسیع کرنے کے عزم سے روکا جا سکا۔