الوقت - شام کے صدر بشار اسد کی سیاسی امور کی مشیر اور میڈیا انچارج بثینہ شعبان نے کہا ہے کہ شام کا موجودہ بحران کا ذمہ دار صرف ترکی ہے۔
انھوں نے ملک میں جاری چند برسوں کی بدامنی اور ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں اور لاکھوں کے بے گھر ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ ترکی نے چھیڑی ہے اور حقیقت میں یہ شام پر ترکی کا حملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ترکی سے ہماری مشترکہ سرحدیں نہ ملتی جن کی لمبائی 860 کلو میٹر سے زیادہ ہے، تو دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے اتنے زیادہ دہشت گرد شام میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ترکی دہشت گردوں کی سیکورٹی چیک پوسٹ ہے اور گزشتہ تین برسوں سے حکومت دمشق کو یہ معلوم ہے کہ ترکی کے خفیہ ادارے داعش کے دہشت گردوں کے رابطے میں ہیں۔
شام کے صدر بشار اسد کی سیاسی مشیر نے کہا کہ ہمیں جو تجربہ حاصل ہوا ہے اور ہمیں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تیل کے ٹینکر شام سے عراق اور عراق کے کردستان سے ترکی جاتے تھے اور اس کے بعد ممکنہ طور پر وہاں سے یورپ جاتے تھے۔
واضح رہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 24 مارچ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ داعش کے دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے اور ان کے اہم ٹھکانوں پر حملے کے باوجود یہ گروہ شام- ترکی کی سرحد پر تیل کی اسمگلنگ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے ۔
بثینہ شعبان نے کہا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی حکومت نے شام کے صنعتی شہر حلب کے کارخانے بند کرا دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کارخانوں میں لگے آلات اور اوزار ترکی پہنچا دیے گئے اور اسي لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردوغان کی حکومت، شام اور پوری دنیا میں دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی حمایت کرکے اردوغان نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔