الوقت - اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ یورپ تک جو دہشت گرد پہنچ رہے ہیں اس کا ذمہ دار ترکی ہے۔
عبداللہ دوم نے کہا کہ مشرق وسطی کے تنازعات کو شدت پسندی کے راستے سے حل کرنے کی ترکی کے صدر رجب اردوغان کی پالیسی کے پس پردہ یہ ملک، یورپ میں دہشت گردوں کو بھیج رہا ہے۔ دی گارڈین کی جمعے کی رپورٹ کے مطابق یہ بات عبداللہ دوم نے 11 جنوری 2016 کو امریکہ کے کچھ بڑے سیاستدانوں کے ساتھ ملاقات میں کہی تھی۔
اردن کے بادشاہ نے امریکی كانگریس میں ہوئے اس نشست میں کہا تھا کہ "ترکی میں انتہا پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ " اس اجلاس میں سینیٹر جان مکین، سینیٹر باب كراكر، مچ میككانیل اور ہیری ریڈ سمیت امریکی مسلح افواج اور خارجہ تعلقات کی کمیٹیوں کے سربراہ اور امریکی سینیٹ میں اقلیتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔
بادشاہ اردن نے یورپ فرار ہونے والوں کے درمیان دہشت گرد عناصر کی موجودگی کو اتفاق نہ مانتے ہوئے کہا، "یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گرد یورپ جا رہے ہیں جو ترکی کی پالیسی کا حصہ ہے۔"
عبداللہ دوم نے شام کے 5 سال کے بحران میں ترکی کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ حکومت، داعش کے دہشت گردوں سے اسمگلنگ کا تیل خرید رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کی حکومت نے شام میں متحارب دھڑوں کی حمایت کرنے کے علاوہ شدت پسندوں کو اپنے ملک کی سرحد عبور کرکے شام میں داخل ہونے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
اردن کے بادشاہ کا یہ بیان ایسی صورت میں سامنے آیا ہے کہ گزشتہ سال روس نے بھی ایسی بہت سی تصاویر شائع کی تھیں جن میں شام سے تیل لادے دسیوں ٹینکر، ترکی میں داخل ہونے کے لئے صف بندی کئے نظر آ رہے تھے۔ اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ ترکی، شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں بنے مبینہ اتحاد کا رکن ہونے کے باوجود، ان دونوں عرب ممالک کے خلاف لڑنے والوں کو ٹریننگ اور ہتھیاروں کی مدد کرنے میں ملوث ہے۔