الوقت - مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو 2011 میں مظاہرین کے قتل عام میں ملوث شامل ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا ہے۔
مصر کی عدالت نے جمعرات کی شام اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ملک کے سابق صدر حسنی مبارک 2011 میں ہوئے مظاہروں کے دوران مظاہرین کے قتل عام کے ذمہ دار نہیں ہیں اور عدالت، ملزم کو بے گناہ قرار دیتی ہے۔
عدالت نے اسی طرح 2011 میں مظاہروں کے دوران مارے جانے والوں کے اہل خانہ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا کہ حسنی مبارک کے خلاف دوسرے کیس دوبارہ شروع کئے جائیں۔ اس طرح اب حسنی مبارک کے خلاف مقدمہ چلانے کا امکان بھی ختم ہو گیا ہے ۔
مصر میں 2011 کے انقلاب نے تین عشروں سے زیادہ وقت سے جاری حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا۔
مصر کے 88 سالہ ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو پہلی بار 2012 میں 239 مظاہرین کے قتل اور جنوری 2011 میں عرب دنیا میں رونما ہونے والے انقلاب کے بعد ملک میں بدامنی پھیلانے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن عدالت نے ان پر دوبارہ مقدمہ چلائے جانے کا حکم دیا تھا۔
مصر کے موجودہ صدر عبد الفتاح السیسی اس وقت فوج کے خفیہ محکمہ کے سربراہ تھے۔
2014 میں ان پر چلایا جانے والا دوسرا مقدمہ بھی ختم ہو گیا جس کے بعد مصر کے اٹارنی جنرل نے پھر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد چلنے والے مقدمے میں اب عدالت نے انہیں بے قصور قرار دے دیا ہے۔
2011 میں مارے جانے والوں کے لواحقین موجودہ صدر عبد الفتاح السیسی کے خلاف بھی مقدمہ چلائے جانے کے مطالبہ کر رہے ہیں جو اس وقت مصر کی فوج کے خفیہ محکمہ کے سربراہ تھے۔