الوقت - ایسی حالت میں کہ حالیہ ہفتے کے دوران سعودی عرب نے حج اور زیارت کے ادارے کی با باضابطہ دعوت کے بعد ایرانی زائرین کے مناسک حج سے متعلق ایران کی شرائط پر گفتگو کے لئے وفد روانہ کرنے پر اتفاق کیا اور اسی تناظر میں کویت کے وزیر خارجہ خلیج فارس کے چھ عرب ممالک خاص طور پر ریاض کا مشترکہ پیغام لے کر ایران پہنچے جس کا اہم ہدف تہران کے ساتھ اختلافات کو کم کرنا تھا اور اسی تناظر میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے عمان اور کویت کا دورہ کیا جس کا اہم ہدف دونوں ممالک کے حکام کے درمیان جاری لفظی جنگ کو ختم کرنا تھا لیکن خوشی کی یہ فضا میونخ سیکورٹی کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجیبر کے سخت اور مخاصمانہ بیانات کے بعد زیادہ دن تک جاری نہیں رہ سکی۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں ایران پر دہشت گردی کی حمایت اور دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران بدستور ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی ہے، ایران اپنے انقلاب کو صادر کر رہا ہے اور پیروی کے معنی کو قبول نہیں کرتا۔ اس نے لبنان، شام اور دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرکے یہ بتا دیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کو قبول نہیں کرتا۔ بے شک عادل الجبیر کی جانب سے اس طرح کا بیان اور اسرائیل اور ترکی کے نمائندوں کی جانب سے اسی طرح کے تائید آميز تکراری بیانات کو بین الاقوامی سطح پر ایرانوفوبیا کی پالیسی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب ان اہداف کے تحت یہ پالیسی جاری رکھے ہوئے اور اس سے اس کو کیا فائدہ ہے؟
ایران دشمنی کی جانب ٹرمپ کی توجہ مبذول کرنا :
ٹرمپ انتظامیہ میں امریکا کی خارجہ پالیسی خاص طور پر مشرق وسطی اور اس کی تبدیلیوں کے بارے میں ہمیشہ سے شک و شبہات کا شکار رہی ہے اور یہ چیز خود سعودی حکام کے لئے بہت گراں ہے کہ مشرق وسطی کے حالات میں ایران برتری حاصل کر لے اور اس کی پوزیشن مضبوط ہو جائے۔ اسی لئے سعودی عرب کی یہ کوشش ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ چین سے مقابلے کے بجائے ایران کی جانب کر دے تاکہ ایران کو برتری سے روکنے کی سعودی عرب کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے۔
ریاض کی تخریبی سیاست کا جواز پیش کرنا :
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایسی حالت میں علاقائی ممالک کی سیکورٹی کے لئے ایران کے خطرے کی بات کہی کہ وہ خود بھی اپنی بحران پیدا کرنے والی پالیسیوں اور علاقے کے ممالک میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی پالیسی کی بنا پر عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں میں بہت زیادہ تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔
ایران کے خلاف علاقے میں اتحاد تشکیل دینا :
بے شک ایران اس وقت مشرق وسطی میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور سعودی عرب، شام، لبنان، عراق، بحرین اور یمن میں ایران کے ساتھ مقابلےکے زیادہ تر محاذ پر اپنے حامی فوجیوں کو کمزور دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے سعودی عرب کی کوشش ہے کہ وہ علاقے میں ایران سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے سیاسی اور سفارتی محاذ پر ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرکے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔
ایرانوفوبیا کے کارڈ سے ثالثی :
سعودی عرب کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ ایران کے بارے میں ہر طرح کی اقتصادی سخت کے لئے اسے یورپ کے ساتھ کی ضرورت ہوگی اور اس بات کے مد نظر کے ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے امریکا اور یورپ کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں اسی لئے سعودی عرب ایرانوفوبیا کی فضا کو پیدا کرنے کے لئے ایران کے بارے میں امریکا اور یورپ کے اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔