الوقت - مشہور صوفی لعل شہباز قلندر کی درگاہ شریف پر ہونے والی دہشت گرادانہ حملے نے غیر متوقع طور پر اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اس دشت گرادانہ حملے کے دو دن بعد پاکستانی حکام نے پاک - افغان مشترکہ سرحد کو تمام آمد و رفت کے لئے بند کر دیا تھا اور پاک فوجیوں نے افغانستان کے اندر میزائل فائر کرنے شروع کر دیئے۔ پاکستان میں ہونے والے پر پاکستان کا یہ رد عمل بہت سے افراد کی نظر میں غیر متوقع تھا جبکہ حملے کے بعد داعش نے فورا ہی حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
پاکستان کا فوج کا دعوی ہے کہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جماعت الاحرار کے عناصر افغانستان میں روپوش ہیں وہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں حملے کا منصوبہ تیار کرتے ہیں۔ اب یہ سوال ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام نے اس حملے کے بعد اتنا شدید رد عمل کیوں ظاہر کیا۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے تہران کی مدرس یونیورسٹی کے پروفیسر اور جیوپولیٹکل کے ماہر ڈاکٹر مصطفی رشیدی سے گفتگو کی۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے حالیہ کشیدہ تعلقات اور علاقے کی تبدیلیوں پر تبصرہ کیا۔ پیش خدمت ہیں اہم اقتباسات :
الوقت : درگاہ شریف پر ہونے والا دہشت گردانہ حملہ، اس ملک میں ہونے والا پہلا حملہ نہیں تھا لیکن اس بار پاکستان کا رد عمل بہت ہی شدید تھا، کیوں ؟
جواب : پاکستان میں زیادہ تر حملے شیعوں پر ہی ہوئے ہیں، اگر چہ درگاہ شریف پر ہونے والا یہ حملہ پاکستان اور شیعوں پر ہونے والے حملوں سے مختلف تھا۔ پاکستان میں ہونے والے زیادہ تر حملوں میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یا طالبان ملوث ہوتے تھے اور پاکستان کی حکومت نے اس حملے پر کوئی خاص رد عمل بھی ظاہر نہیں کیا لیکن حالیہ حملے پر پاکستان کے شدید رد عمل سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کچھ اور ہی اسباب ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی حکومت پر شیعوں پر ہونے والے حملوں کی زیادہ تشویش نہیں ہے لیکن اس حملے نے پاکستان کی حکومت کو خواب خرگوش سے بیدار کر دیا، اب اس کی سمجھ میں آ گیا کہ واقعا ملک کو داعش نامی ایک شدید خطرے کا سامنا ہے، یہی سبب ہے کہ پاکستان حکومت نے اس پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔
الوقت : داعش پاکستان میں پہلے بھی سرگرم تھا اس کے باوجود داعش کی سرگرمی نے اس وقت پاکستانی حکام کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے؟
جواب : سب سے اہم مسئلہ پاکستان میں داعش کا داخل ہوناہے۔ اس تعلق سے یہ کہنا ضروری ہے کہ 1994-1995 میں طالبان نے پشتون اور بلوچ مدارس میں ٹریننگ حاصل کی، اس کے ان افراد کو ناامنی پھیلانے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کرنے جیسے دیگر اہداف کے لئے روانہ کیا گیا۔ سعودی عرب کی طرح پاکستان کی بھی ثابت حکمت عملی ہے وہ دہشت گرد جو ملک کے مفاد کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ان کو دوسرے ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ پاکستان کی نظر میں اس اقدام سے اسلام آباد کی حفاظت ہوتی ہے اور اس کے مفاد پورے ہوتے ہیں لیکن ان کو یہ پتا نہیں تھا کہ دہشت گرد کسی کے بھی دوست نہیں ہوتے اور داعش نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے مفاد کے حصول کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔