الوقت - دنیا میں سب سے زیادہ پیٹرول سعودی عرب کے پاس ہے اور دنیا کے تمام مسلمان مکہ اور مدینہ شریف کی زیارت کے لئے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ تین سال پہلے تک سعودی عرب نے پیٹرو ڈالر کی مدد سے اپنے شہریوں کے لئے مرفہ زندگي مہیا کر رکھی تھی لیکن موجود اقتصادی بحران اور دنیا میں پیٹرول کی قیمتوں میں شدید کمی کی وجہ سے سعودی عرب کے عوام کی زندگی درہم برہم ہوگئی۔ در ایں اثنا یمن پر سعودی عرب کے فوجی حملے اور علاقے میں دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری نے سعودی عرب کے خزانے کو خالی کر دیا اور سعودی عرب بدتر اقتصادی صورتحال کا سامنا کرنے لگا۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال سعودی عرب کو 79 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا تھا۔ ان حالات میں سعودی عرب کے وزیر دفاع اور ولیعہد محمد بن سلمان نے کچھ منصوبے اور تجاویز پیش کیں جس کی رو سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ 2030 تک سیاحت کے شعبے میں در آمد میں اضافے، مہاجرین اور پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی پالیسی میں تبدیلی اور ٹیکس جیسی غیر پیٹرولیم اشیاء کی فروخت سے ہونے والی در آمد میں اضافے اور آرامکو کے پانچ فیصد شیئر کی فروخت سے نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کی پیٹرول کی فروخت پر وابستگي کو کم کرے گی بلکہ ملک میں جوانوں کی بے روزگاری میں بھی 7 فیصد کی کمی واقع ہوگی۔
کچھ سال پہلے تک سعودی عرب کے جوان پڑھائی مکمل کرنے کے بعد تیزی کے ساتھ سرکاری اداروں میں کام میں مصروف ہو جاتے تھے۔ یعنی پڑھائی ختم ہونے کے بعد دو تہائی سعودی شہری سرکاری اداروں میں نوکر پا جاتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور سعودی عرب کی آبادی میں اضافے، ملک کے اقتصادی امور میں سعودی خواتین کی مشارکت میں اضافے اور دوسرے طریقوں سے سرکاری عہدوں کے پر ہونے کی وجہ سے سعودی عرب میں بے روزگاری کی سطح میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا۔ اس درمیان جب سعودی عرب میں انسانی قوت میں کمی تھی ایک کروڑ غیر ملکی سعودی عرب پہنچ گئے اور وہاں کے تمام کام انجام دینے لگے۔ اس بنیاد پر ریاض نے ملک کے بجٹ خسارے کو دیکھتے ہوئے گزشتہ سال ٹیکس اور توانائی کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ کردیا تاکہ ملک کے خزانے کو خالی ہونے سے روکا جاسکے۔
یمن کی جنگ کے بے پناہ خرچے اور اس جنگ میں متعدد قسم کے پیشرفتہ ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف یہ جنگ کے سال میں 30 ارب ڈالر کا خرچہ آیا بلکہ اس جنگ کے جاری رہنے اور اس کے ساتھ ہی ریاض کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے نئے سال میں بھی سعودی عرب کو کئی ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر غیر ملکیوں کو اخراج کیا جائے گا اور دسیوں ہزار جوانوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونہ پڑے گا۔
گزشتہ سال کی شروعات میں سعودی عرب کی سب سے بڑی کمپنی بن لادن نے 77 ہزار ملازمین اور مزدووں کو مالی بحران کی وجہ سے فارغ کر دیا جبکہ اس کمپنی میں دو لاکھ ملازمین بر سر روزگار تھے۔ اسی طرح یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ اس کمپنی میں کام کرنے والے 12 ہزار سعودی ملازمین بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ نوکری سے نکالے گئے ملازمین اور مزدوروں نے اپنی تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے پر تشدد مظاہرے بھی کئے اور کئی بسوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔
بہرحال سعودی عرب میں بادشاہی نظام ہے اور وہاں پر چھوٹے سے لے کر بڑا کام سب کچھ موروثی ہوتا ہے، اس میں صلاحیت اور توانائی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے عوام میں بھی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور وہ بھی دنیا اور علاقے کی خبروں سے آگاہ ہو رہے ہيں، یہ سعودی حکومت اور شاہی نظام کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔