الوقت - امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں پہنچنے سے جیسا کہ توقع تھی، اوباما کے صدارتی دورے کے دوران اس ملک کے ایران کے ساتھ ظاہری طور پر اچھے اور کم سطح تعلقات، ایک بار پھر بدامنی اور کشیدگي کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران ایران کے بارے میں اوباما کی پالیسیوں بالخصوص جوہری معاہدے اور عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی پالیسیوں کی سخت تنقید کی تھی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر میں بر سر اقتدار ہوا تو ایٹمی معاہدے کو پھاڑ دؤں گا۔
ٹرمپ اب وائٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے جوہری معاہدے پر نظر ثانی کرنے یا میزائل تجربے کرکے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے اقدامات کا مقابلہ کرنے جیسے مسائل پیش کر کے ایران کے ساتھ مقابلےبازی شروع کر دی ہے۔ ان سب کے باوجود اگر ایران کے اثرو رسوخ سے مقابلے کے واشنگٹن کے منصوبے بندی پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک کے لئے ہتھیاروں کی فروخت کے لئے ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ خلیج فارس کے عرب ممالک کو ایرانوفوبیاں کے بہانے اپنے ہتھیاروں کے بازار سے بڑی مقدار میں ہتھیار فروخت کئے جائیں اور اس طرح مغربی ممالک خاص طور پر امریکا کی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کو بازار میں ایک بار پھر رونق پیدا ہو جائے۔ اسی تناظر میں وال اسٹریٹ جنرل نے اپنے ایک مضمون میں دعوی کیا کہ امریکا کی نئی حکومت روس کی خوشنودی حاصل کرنے اور تہران اور ماسکو کے درمیان شگاف پیدا کرنے کے راستے تلاش کر رہی ہے۔
عرب انقلاب یا عرب بیداری کے بعد مشرق وسطی کے حالات کے ساتھ ہی بحران کی آگ میں گھی ڈالنے اور اس کے اثر و رسوخ کو وسیع کرنے کے مغرب کے منصوبوں سے مقابلے کے لئے ایران اور روس کے مشترکہ مفاد اور ہدف سامنے آئے۔
بہر حال مشرق وسطی کی تبدیلیوں بالخصوص شام کے حالات میں ایران اور روس نے قریبی تعاون کیا۔ اسی تناظر میں ایٹمی معاہدے کے بعد روس نے ایران کو ایس - 300 میزائل سسٹم دے دیا اور اسی کے ساتھ ایران نے شام میں فضائی حملے کرنے کے لئے روس کو حمدان کی نوژہ ہوائی چھاؤنی استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
اسی کے ساتھ ٹرمپ نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر پوتين ایران کے اتحادی حلقے سے نکلنے کو تیار ہو جائیں تو ماسکو کے خلاف امریکی وزارت خزانہ کی پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ امریکہ، یوکرین میں ماسکو کی فوجی کارروائی کی مذمت نہیں کرے گا اور روس کی سرحدوں پر نیٹو کی مزید پیشرفت کو روک دے گا۔ بہر حال ایسا لگتا نہیں ہے کہ روس، امریکہ کی جانب سے دیئے گئے ان امتیازات کے بدلے ایران کے اتحاد کو چھوڑنے کو آمادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس، امریکا کی سودے بازی کی سازش میں آنے والا نہیں ہے۔
اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ تقریبا تین عشروں سے مشرق وسطی کے تبدیلیوں میں روس الگ تھلگ ہی رہا اور اب جاکر وہ علاقائی تبدیلیوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے ملک کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکرہے کہ علاقے میں مغرب کی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے میں ایران کے تعاون اور اس ملک کے کردار کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ فطری طور پر روس بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل مغربی ممالک کے اسٹراٹیجک اتحادی ہیں اور مستقبل قریب میں یہ حکومتیں ایران کی خالی جگہ کو پر نہیں کر سکتیں ۔
اسی کے ساتھ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی ایران کا ساتھ چھوڑنے کے لئے ماسکو کو یہ تجویز دی تھی کہ سوویت یونین کے دور میں خلیج فارس کے عرب ممالک کے توانائی کے شعبے کو اس کے کنٹرول میں دے دے گا لیکن اس تجویز کو بھی روس نے واضح طور پر مسترد کر دیا۔ بہر حال روس اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ایران کی مشارکت کے بغیر وہ علاقے خاص طور پر مشرق وسطی میں اپنے مفاد کو پورا ہی نہیں کر سکتا۔