الوقت - افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی کا کہنا ہے کہ ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ ملک کی تینوں اہم طاقتوں کی خودمختاری کی حفاظت کرنے کی توانائی نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں آئین کی تبدیلی بہت نزدیک ہے اور یہ قومی ضرورت بن گئی ہے۔ اسی موضوع کے پیش نظر ہم نے افغانستان کے امور کے مشہور تجزیہ نگار پیر محمد ملازہی سے گفتگو کی۔ پیش خدمت ہیں اہم اقتباسات :
سوال : افغانستان میں آئین کے تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
جواب : اس سوال کے جواب کے لئے ماضی پر ایک نظر ڈالنے کی ضرروت ہے۔ در حقیقت امریکا کے حملے اور افغانستان میں طالبان کی سرنگونی کی وجہ سے جرمنی میں پہلی نشست ہوئی اور وہاں پر طالبان کی امارت اسلامی کی جگہ سیاسی نظام کا مسئلہ پیش کیا گیا۔ پہلا نظریہ یہ تھا کہ افغانستان کا سیاسی نظام صدارتی ہو اور افغانستان کے حالات، تاریخ اور ماضی اور اس ذہنیت کے مد نظر کہ حکومت کو اپنا حق سمجھتے تھے، اسی لئے پشتون کسی بھی طرح کی تبدیلی اور معاہدے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اسی لئے "بن اجلاس" میں کرزئی نے جن کا تعلق پشتون قوم سے ہے، صدارتی نظام کی تصدیق کی تھی۔
اس کے مد مقابل دوسرا نظریہ تھا جس کا یہ خیال تھا کہ افغانستان کے متعدد قوم کے افراد رہتے ہیں، ملک کے حالات میں مخصوص ہیں اور ماضی کے حالات بھی پشتون قبائل کی اقتدار طلبی کا نتیجہ تھے، اسی لئے موجود حالات میں افغانستان میں طاقت کی تقسیم قوم اور مذہب کے لحاظ سے انجام دی جائے۔ موجودہ وقت میں ڈاکٹر عبد اللہ اور ان کے حامی اسی مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود مذکورہ اجلاس میں امریکا نے مطالبہ کیا کہ جلد ہی افغانستان میں قانونی حکومت تشکل پائے۔ اسی لئے افغانستان میں صدارتی نظام کا قیام ہو گیا۔
سوال : کیا افغانستان کا موجودہ سیاسی نظام ناکام ہے اور ملک کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا ؟
جواب : ہر سیاسی نظام کی اپنی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ افغانستان میں اس وقت سیاسی نظام کے لئے دو اصل کارکردگی عمل پیرا ہے۔ پہلی سیکورٹی اور استحکام کا قیام اور دوسری ایک ایسا نظام ہو جو ملک کے لئے پائدار پیشرفت اور اجتماعی فلاح کو ممکن بنا سکے۔ افسوس کہ افغانستان کا موجودہ سیاسی نظام دونوں کی شعبوں میں ناکام ہو گیا ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ طالبان 23 صوبوں میں سرگرم ہیں اور داعش کا مسئلہ بھی زور و شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ افغانستان کا موجودہ سیاسی نظام ملک کی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے، سخت ہے۔
سوال : افغانستان میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے حامی اور مخالفین کون افراد ہیں ؟
جواب : افغاستان میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے حامی اور مخالفین متعدد قوم و قبیلے کے افراد ہیں۔ افغانستان میں 54 چھوٹی بڑی قومیں زندگی بسر کرتی ہیں لیکن ان کے درمیان چار بڑی قومیں اور دو بڑے مذہبی فرقے ہیں۔ چار بڑی قوموں میں تاجیک، پشتون، ہزارہ اور ازبک ہیں جبکہ دو مذہبی فرقے شیعہ اور سنی ہیں۔ سنی مذہب میں بھی کچھ دیوبندی اور اخوان المسلمین کے پیروکار ہیں جبکہ شیعوں میں دو پارٹیاں ہیں اکبری اور خلیلی۔ پشتون کی سربراہی احمد کرزئی کرتے ہیں جبکہ تاجیک قوم کی نمائندگی عبد اللہ عبد اللہ کرتے ہیں جبکہ ازبک کی نمائندگی عبدالرشید دوستم کرتے ہیں اور ان میں شیعوں کے دونوں گروہ بھی شامل ہیں۔ بہرحال احمد ضیا مسعود اور عبدالرشید دوستم اور محمد محقق سیاسی نظام کی تبدیلی کے حامی ہیں۔