الوقت - آستانہ اجلاس، بحران شام کے خاتمے کے لئے سب سے پہلا سفارتی سنجیدہ قدم تھا۔ یہ نشست، حلب کی آزادی کے وقت ایران کی وزارت خارجہ کے شروعاتی تبادلہ خیال کا نتیجہ تھی اور آخرکار ان گروہوں کی مخالفتوں اور خلاف ورزیوں کے باوجود جنہیں جنگ بندی میں شامل نہیں کیا گیا تھا، اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان ہوئے معاہدے کے مطابق ملک میں جنگ کے خاتمے کے لئے سیاسی راہ حل پر تاکید کرتے ہوئے جنگ بندی کے جاری رہنے پر بھی زور دیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مخالفین اور داعش و نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو اب یہ سمجھ میں آ گیا ہے کہ اب انہیں نہ صرف ترکی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی بلکہ انہیں میدان جنگ میں شام کی فوج سے مقابلہ کرنے کے علاوہ شام کے دوسرے مسلح گروہوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ان حالات سے یقینی طور پر داعش اور نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے خاتمے کا عمل تیز ہوگا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ آستانہ اجلاس سے پہلے تک نصرہ فرنٹ کے ساتھ جنگ بندی میں ایک گروہ ہی حیثیت سے احرار الشام گروہ کو شامل کرنے پر شدید اختلافات پائے جاتے تھے۔ یہ دونوں گروہ اس سے پہلے تک حلب میں ایک دوسرے کے مد مقابل تھے اور نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے اس شمولیت کے مخالفین رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی۔ ان حالات کا نتیجہ احرار الشام میں شگاف پیدا ہو گیا اور ابو ہاشم الشیخ کی سربراہی میں جیش الاحرار گروہ وجود میں آ گیا۔
ترکی کی جانب سے احرار الشام کی کھلی حمایت اور اس کو کمزور ہونے سے بچانے کی وجہ سے نصرہ فرنٹ کے رہنما اپنے مستقبل کے تعلق سے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ اسی بنیاد پر آستانہ اجلاس سے پہلے الزاویہ کے پہاڑی علاقوں، صوبہ ادلب کے نواحی علاقوں پر احرار الشام کے ٹھکانوں پر قبضہ اور اسی طرح جیش الاسلام، جبہۃ الشامیہاور دوسرے گروہوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کئے۔ مذکورہ معاہدہ اس بات کا سبب بنا کہ مخالف گروہوں کی قیادت میں نصرہ فرنٹ کے خطرے سے مقابلے کے لئے ایک آپریشن روم تشکیل دیا گیا۔ یہ مسئلہ قزاقستان مذاکرات کے نتائج اور اس کے نفاذ کی بہترین دلیل ہے۔
شام کے باخبر ذرائع نے جو آستانہ اجلاس میں شریک تھا، غیر ملکی اخبار الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آستانہ مذاکرات میں ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا ہے جس کے تحت داعش اور نصرہ فرنٹ کے خطرے سے مقابل کے لئے شام کی فوج اور مسلح مخالفین کا ایک مشترکہ آپریشن روم بنایا جائے۔
آستانہ اجلاس کی سب سے بڑی اور عظیم کامیابی، شام کی موجودہ صورتحال میں اہم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایک محاذ کا وجود میں آنا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ان گروہوں کے لئے مصیب بن گیا ہے جو شام کے حالات کے بہتر ہونے کے باجود بھی ہتھیار زمین پر رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔
شام کے مسلح مخالفین کی سیاسی راہ حل پر تاکید اور نصرہ فرنٹ کے مقابلے کے لئے ہماہنگی، بحران شام میں ایک بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔ اس موضوع کی اہمیت، غیر ملکی جنگجوؤں کی عدم شرکت ہے۔