الوقت - صیہونی حکومت کے ایک اخبار نے امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا کہ اصل مسئلہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ نہیں ہے بلکہ شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی ہے اور تل ابیب کو اس بارے میں امریکا کے گفتگو کرنی چاہئے۔ اسرائیل کی داخلی سیکورٹی کے ایک محقق سیما شاین نے جو موساد کی تحقیقاتی شعبے کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں، ہارٹص میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالسییوں خاص طور پر مشرق وسطی کے بارے میں تجزیہ پیش کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ آجکل بہت سے افراد یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ امریکا کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے بارے میں ٹرمپ کے مثبت مواقف اور ایران کے خلاف ان کے منفی نظریت سے ان کی خارجہ پالیسی کا پتا چلتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اسرائیل، ایران کے ایٹمی معاہدے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا ہے اس کے لئے سب سے زیادہ تشویش کا سبب شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی ہے۔ ان کا لکھنا تھا کہ شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی خاص طور پر جنوبی سرحدوں اور جولان کی پہاڑیوں کی جانب اس کی توسیع سے اسرائیل بہت تشویش میں مبتلا ہے اور اگر یہ موضوع یعنی جولان میں ایران اور حزب اللہ کے جوانوں کی موجودگی کا سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل کے خلاف ایک اور محاذ تیار ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کر لینی چاہئے۔