الوقت - اگرچہ شام میں جنگ بندی کے نفاذ اور امن مذاکرات کا مقدمہ فراہم ہونے کے بعد روس نے کہا ہے کہ وہ شام میں اپنی فوج کی تعداد میں کمی کر رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ علاقے میں فوجیوں کی تعداد اور ماسکو کے اہم کردار میں کمی کے معنی میں نہیں ہے۔ در ایں اثنا روس کے جنگی بیڑے نے لیبیا میں لنگر ڈالا اور دونوں ممالک کے فوجی حکام کے درمیان مذاکرات ہوئے جس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے روس کا جنگی بیڑا ایڈمیرل کوزنتسف جو اب تک شام میں مہم پر تھا، لیبیا پہنچا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اعلان کیا گیا کہ روسی فوج کی ایک ٹیم لیبیا کی فوج کے کمانڈر خلیفہ حفتر اور عقیلہ صالح سے ملاقات کے لئے طبرق بندرگاہ گئے۔
روئٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ لیبیا کی فوج کے اعلی کمانڈر خلفیہ حفتر ملک کی موجودہ حکومت کے مخالف ہیں اور انہوں نے روسی بیڑے کا دورہ کیا۔ روئٹرز کے مطابق خلفیہ حفتر کی جانب سے روسی بیڑے کا دورہ اور روسی فوجیوں سے ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ روس، لبییا کے ایک فوجی جنرل کی حمایت کرتا ہے۔ روئٹرز نے اسی طرح دعوی کیا ہے کہ روس کی جانب سے خلیفہ حفتر کی حمایت سے جنہیں بعض لیبیائی شہری ملک میں سب سے طاقتور شخص سمجھتے ہیں اور ملک کی صورتحال کو بہتر کرنے کی توانائی رکھتے ہیں، یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس شام کی طرح لبییا کی بھی فوجی امداد کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ اس بارے میں روسی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ خلیفہ حفتر نے روسی بیڑے پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے روس کے وزیر دفاع سرگئی شويگو سے گفتگو کی اور دونوں فریق نے مشرق وسطی میں بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں سے جد جہد کے بارے میں اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
لیبیا میں روس کے اہداف کیا ہیں ؟
برطانوی روزنامہ سنڈے ٹائمز نے روسی اور لیبیائی حکام کے درمیان حالیہ دنوں میں مذاکرات میں تیزی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو، 2011 سے جاری لیبیا کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے بحران لیبیا میں کود پڑا۔ سنڈے ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ولادیمیر پوتین کا خیال ہے کہ ان کے ملک کو سیکورٹی کونسل میں پاس ہونے والی قرارداد میں شکست ہوئی جس کے تحت نیٹو کو لیبیا پر بمباری اور معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی اجازت ملی۔ معمر قذافی نے حکومت گرنے سے ایک سال پہلے روس کے ساتھ بنغازی میں روس کی بحریہ کی چھاونی بنانے پر سمجھوتہ کیا تھا، معمر قذافی کی حکومت کے گرنے سے یہ سمجھوتہ تقریبا ختم ہو گیا ہے۔
شام کے بعد لیبیا ؟
لیبیا میں روس کا سرگرم ہونے اور لیبیا کے فوجی حکام سے روسی حکام کے رابطے میں اضافہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماسکو نے شام میں اپنے اصل اہداف حاصل کرنے کے بعد اب لیبیا کا رخ کر لیا ہے اور اس ملک میں اپنے مفاد کی حفاظت کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بارے میں military.com سایٹ کے فوجی تجزیہ نگار جوزف میکالوف لکھتے ہیں کہ بشار اسد کے مستقبل کے موضوع کو یقینی بنانے کے بعد کرملین ہاوس نے مشرق وسطی میں سابق سوویت یونین کے اہم اتحادیوں میں سے ایک یعنی لیبیا کی جانب اپنی توجہ مبذول کر دی ہے۔ اس مقالے میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں کرملین نے خلیفہ حفتر کی حمایت میں اضافہ کر دیا اور ان کو پیشرفتہ سیاسی اور فوجی شخصیت کے طور پر یاد کیا ہے، خلیفہ حفتر وہی شخص ہیں داعش کے خلاف جنگ کے لئے مناسب شخص ہیں تیل کی پیداوار پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے انہوں نے حکومت لیبیا کی بہت زیادہ مدد کی ہے ۔ در ایں اثنا روس نے لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت کی جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں تشکیل پائی ہے، مذمت کی ہے اور اسے ناکارآمد اور غیر مفید قرار دیا ہے۔