الوقت – رپورٹوں میں پتا چلا ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1950 سے اب تک چار لاکھ یمنی یہودی بچے لا پتا ہیں۔
لاپتہ پجوں کے واقعات کی متعدد رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسپتالوں اور مہاجر کیمپوں سے بچوں کو اغوا کرکے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ صیہونی حکومت کی تشکیل کے زمان سے یہ بچوں کے اغوا کا مسئلہ، ہمیشہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر یمنی بچوں سے متعلق ہیں۔
مغوی بچوں کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں یا اسرائیل کے باہر منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں اسرائیلی خاندان یا یہودی خاندان ان کو گود لے لیتے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے مزید تحقیقات او تفصیلات سے انکار کر دیا۔ تل ابیب کا دعوی ہے کہ اسپتال میں انتقال کرنے والے بچوں کے کیس کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کوئی بھی عدالتی کاروائی نہیں کی جاتی ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لاش کو والدین کے حوالے نہیں کیا جاتا اور تدفین کے مقامات کی بھی نشاندہی نہیں کی جاتی۔ بہت سے افراد کو شک ہے کہ یہ اس سازش کا حصہ ہے جس کا ہدف یہودیوں کی اشکنازی شاخ کے اثر و رسوخ کو قائم کرنا ہے۔ موجود دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے پاس اس کے پاس کے اس کی زیادہ اطلاعات ہیں۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا ہے کہ اطلاعات سب افراد کے لئے مہیا ہے۔