الوقت- قطر کے حکام نے 90 کے عشرے میں عرب زبان کے مخاطبین کے لئے ایک طاقتور ٹی چینل شروع کرکے مشرق وسطی میں اپنے مقام کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ یہ فیصلہ، سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور دشمن کو شکست دینے کے لئے ہارڈ وسائل کے زیادہ کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے لیا گیا۔ اسی بنیاد پر 1996 میں الجزیرہ نیٹ ورک کو تشکیل دیا گیا جس میں تمام ماہرین افراد کو جگہ دی گئی۔ الجزیرہ نے 2010 تک علاقے کے تمام مسائل کو کوریج دے کر عرب زبان مخاطب کے اعتماد کو حاصل کر لیا۔ اس نیٹ ورک کی مہارت اتنی زیادہ تھی کہ حتی امریکی حکام بھی علاقے کے کچھ واقعات کے بارے میں الجزیرہ ٹی وی چینل کی خبروں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے۔
یہ عمل لبنان اور عزہ پر اسرائیل کے حملوں کے کوریج کے موقع پر اپنے عروج پر پہنچ کیا تھا اور اس ٹی وی چینل نے ایران کی جانب سے لبنان اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے شفاف مواقف کو کھل کر بیان کیا لیکن اسلامی بیداری کے نام سے مشہور عرب بہار کی لہروں کے شروع ہوتے ہی الجزیرہ ٹی وی چینل نے آہستہ آہستہ اپنا اصل چہرا دکھانا شروع کیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کے پرڈیوسرز اور اینکرز نے بھی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے افغانستان اور عراق میں امریکی حکام کی پالیسیوں اور اسی طرح علاقے میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کی شدید اور براہ راست مذمت کی۔ ان حالات میں عرب دنیا میں یہ ٹی وی چینل لوگوں کا من پسند اور قابل اعتماد چینل بن گیا۔
در ایں اثنا دہشت گرد گروہوں کے حامیوں نے جو مشرق وسطی کے عوام کے مطالبات کو تبدیل کرنے کے درپے تھے، اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے الجزیرہ کے ساتھ العربیہ اور بی بی سی کی توانائیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس عمل کے نتیجے میں شام جیسے ممالک میں قوم کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی جو کچھ دن پہلے تک ایک پرچم کے زیر سایہ تھی۔
اسی تناظر میں الجزیرہ نے اس ملک کے بحران کے آغاز میں یعنی 2011 میں بشار اسد کے مخالفین اور ان کی پالیسیوں پر اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کو ایسے کوریج دیا کہ نہ صرف علاقے کے عوام بلکہ شام کے تمام شہری یہ گمان کرنے لگے کہ بشار اسد کی حکومت کے خلاف پورے ملک اور حکومت کی ہر سطح پر اعتراض ہو رہے ہیں۔
الجزیرہ نے گزشتہ 6 برسوں کے دوران شامی فوج کیا جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور مـخالفین و عام شہریوں کے قتل عام سے متعلق بے بنیاد الزامات عائد کئے جبکہ یمن کی صورتحال پر اس کا کوئی خاص رد عمل نہیں ہوتا۔ اس ٹی وی چینل نے آئیں بائیں شائیں کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے تحریک انصار اللہ کو جو عوامی مطالبات کو پیش کرنے والے ہیں، باغی گروہ کا نام دیا لیکن شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کو اعتدال پسند مخالفین کا نام دیتا ہے۔ اسی طرح اس ٹی وی چینل سے شام فوجی کی پسپائی اور شام کے اہم شہروں پر دہشت گرد گروہوں کے قبضے کی افواہ پھیلا کر شامی پناہ گزینوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ میدان جنگ میں بشاراسد کی کامیابیوں کے ساتھ ہی الجزیرہ کی عوام مخالف پالیسیاں پر شدت اختیار کرتی گئیں۔
اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ٹی وی چینل نے عالم اسلام کی چنندہ خبروں کو کوریج دے کے مغربی اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی سیاستوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔