الوقت - شام کے صنعتی شہر حلب میں جھڑپیں تمام ہو گئی اور بین الاقوامی میڈیا بے آب و تاب سے جنگ کے بعد کی صورتحال پر اپنے تبصرے اور مواقف بیان کر رہے ہیں۔ فرانس کی درخواست پر سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ ہم سب بحران شام کے حل میں ناکام ہوگئے۔
اس سے پہلے فرانس اور امریکا کے وزرائے خارجہ سمیت مغربی حکام نے حلب کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شام کی فوج کے ہاتھوں حلب کے سقوط کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی کے ساتھ ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی مغرب کی زبان بولتے ہوئے حلب میں شامی فوجی کی کامیابی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حلب کی صورتحال پر انقرہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔
بہرحال حلب کی آزادی کے وقت مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں جو چیز مشترک تھی وہ لفظ "سقوط حلب" تھا جس نے شام کے صدر بشار اسد کے مخالف مغربی اور عرب محاذ کو شام کی آئندہ صورتحال کی جانب سے ناراض اور ناامید کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر اصل سوال یہ ہے کہ کیوں مغرب، حلب کی آزادی کو جیسا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے بیان میں ہے، شام میں شکست کے معنی میں سمجھ رہے ہیں؟ حلب کی آزادی نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ مغرب اور اس کے عرب اتحادی شام میں خود کو شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں۔ حلب کی آزادی سے شام کی حکومت کے مخالف مغربی اور عرب محاذ کے تین منصوبوں پر پانی پھر گیا۔
حلب کی آزادی اور نو فلائی زون منصوبے کی شکست :
شام کے حکومت مخالف مغربی اور عرب محاذ نے مسلح دہشت گردوں کی حمایت کے ہدف سے شمالی شام اور صوبہ حلب میں نو فلائی زون کا منصوبہ بیش کیا تھا۔ حلب میں جنگ کے آغاز کے تین سال بعد اکتوبر 2015 میں پہلی بار جرمن چانسلر انگلا مرکل نے حلب اور شمالی شام میں نو فلائی زون کے قیام کی ضرورت پر تاکید کی تھی۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے جرمن چانسلر کے اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ ترکی نے بھی اس سے پہلے یہی منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس کے بعد امریکا کے وزیر خارجہ نے بھی یہی تجویز پیش کی جس پر روسی اور شامی حکام کے سخت رد عمل سامنے آئے۔ ایران نے بھی اس موضوع کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے شام میں نو فلائی زون کی تجویز کے بارے میں کہا کہ کسی کو بھی شام میں لیبیا کا ڈرامہ دہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عالمی برادری نے اس سے پہلے اس کا تجربہ کر لیا ہے اور اس کا نتیجہ نہ صرف لیبیا نے بلکہ یورپ نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ ان سب سے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام میں نو فلائی زون کے قیام کا مقصد، حلب کے کچھ علاقوں پر دہشت گردوں کے قبضے کو برقرار رکھنا تھا اور حلب کی آزادی سے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔
شمالی شام کی پوری سرحد پر کردی کینٹن کا قیام :
شام کی شمالی سرحد پر کردی کینٹن کا منصوبہ امریکا نے پیش کیا۔ اس منصوبے کی بنیاد پر شام کی شمالی سرحدون یعنی عفرین سے لے حسکہ تک کے تمام علاقوں کو کردی کینٹن کے مد نظر رکھا گیا تھا۔ دفاعی امور کے تجزیہ نگار جنرل احمد رحال کے مطابق، امریکا اس کوشش میں ہے کہ شام کی ڈیموکریٹک فورس کی حمایت کرکے اور شمالی سرحدوں پر کردی کینٹن کا قیام کرکے ملک کے شمالی علاقوں میں آبادی کے تناسب اور جغرافیائی صورتحال کو اپنے وابستہ فوجیوں کے مفاد میں کر دے۔ شام کی حکومت نے اس منصوبے کی بھی سخت مخالفت کی اور اس پر عمل در آمد کو شام کی تقسیم کے مترادف قرار دیا۔ حلب کی آزادی سے امریکا کا یہ بھی منصوبہ خاک میں مل گیا کیونکہ اب نہ تو کرد اور نہ ہی امریکا، شامی فوج کے راستے کو روک سکتا ہے۔
شمالی شام میں خود مختار علاقے کا قیام :
حلب کی آزادی سے ناکام ہونے والے منصوبوں میں سے ایک حلب میں باغی گروہوں کے لئے خود مختار علاقے کے قیام کا منصوبہ تھا جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے کو شام کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفن ڈی میستورا نے جنگ روکنے کے عنوان سے پیش کیا تھا۔ مغرب بشار اسد کو اقتدار میں باقی رکھنے کے لئے مشرقی حلب میں باغیوں کے زیر کٹرول علاقے کو خود مختار علاقہ کا درجہ دینے کے لئے ہاتھ پیر مارنے لگا۔ یہ منصوبہ بھی شام کے لئے مغرب کے حمایت یافتہ منصوبوں میں سے ایک تھا جو حلب کی مکمل آزادی سے 20 روز پہلے پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کی بھی شام کی حکومت نے سخت مخالف کی اور شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اسٹیفن ڈی مستورا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ تجویزمکمل طور پر مسترد ہے۔