الوقت - 26 مارچ 2015 کو سعودی عرب نے صنعا کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے مقصد سے یمن پر وسیع پیمانے پر حملے شروع کئے۔ سعودی عرب کے وزیر دفاع اور جانشین اور ولیعہد محمد بن سلمان کو امید تھی کہ امریکا کی سیاسی، خفیہ اطلاعات اور ہتھیاروں کی طاقت سے منصور ہادی کو یمن کے اقتدار میں پہنچا دیں گے اور اس موقع سے سعودی عرب کی طاقت کا ڈنکا بجانے کے لئے استعمال کریں گے لیکن انصار اللہ اور علی عبد اللہ صالح کے حامیوں سمیت انصار کے کے اتحادیوں کی مزاحمت نے یمن میں سارے اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔
یمن میں جنگ کے طولانی ہونے اور ساتھ ہی سعودی عرب کے اتحاد میں شامل فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت نے رای عامہ کے غم و غصے کو بڑھا دیا۔ مسئلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اقوام متحدہ نے سعودی عرب کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔ اگر چہ بان کی مون پر محمد بن سلمان کے دباؤ کی وجہ سے سعودی عرب کا نام اس لسٹ سے نکال دیا گیا تاکہ اس ملک کے خلاف کوئی اقدام نہ ہو سکے۔
ان سب کے باوجود یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے روزانہ 20 کروڑ ڈالر خرچ ہونے اور دوسری جانب ریاض کی طرف سے کٹوتی کی پالیسیوں کے فافذ ہونے و اس ملک کا نام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے نام کے نکالے جانے سے امریکا کی تشویش کی وجہ سے سعودی عرب اس بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر مجبور ہو گیا۔
اسی تناظر میں کویت کی میزبانی میں ستمبر کے مہینے میں امن مذاکرات شروع ہوئے۔ مذاکرات کے ایک فریق انصار اللہ اور علی عبد اللہ صالح کے حامی تے جبکہ دوسرا فریق منصور ہادی کی سربراہی میں مستعفی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے سعودی عرب تھا۔
90 دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے اور جنگ بندی پر ہونے والی موافقت کی ریاض کی جانب سے خلاف ورزیاں ہوئیں کیونکہ انصار اللہ کے مطالبات کو قبول کرنا سعودی عرب کے لئے سخت تھا اور اسی لئے انہیں امید تھی کہ موجود ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں اس گروہ کو کاری ضرب لگائے لیکن ہر بار پہلے سے زیادہ ناکام سعودی عرب سیاسی اور فوجی دباؤ برداشت کرنے پر مجبور ہوا۔
تحریک انصار اللہ گروہ میں شیعہ زیدی افراد کی اکثریت ہے جو یمنپر سعودی عرب کے حملے سے پہلے تک ملک کی حکومت اور سیاست سے میدان سے حاشیہ پر تھے لیکن جارحین کے مقابلے میں مزاحمت اور عوامی کمیٹی تشکیل دینے کے لئے ان کے پروگرام اور اسی طرح سیاسی سمجھوتے کے حصول کے لئے علی عبد اللہ صالح کے ساتھ ان کی مفاہمت کی وجہ سے آج یمن کا کوئی گروہ یا شخص ان کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے یمن میں سیاسی ڈھانچے کو تشکیل نہیں دے سکتا۔
تحریک انصار نے امن مذاکرات میں اس بات کی کوشش کی کہ مرکزی طاقت یمن کے انقلابیوں کے ہاتھ میں اور ریاض کے حامیوں سے دور رہے۔ اس کے مقابلے میں ریاض، مستعفی صدر کو اقتدار میں پہنچانے اوراس گروہ کے ہتھیار زمین پر رکھنے پر مبنی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کو نافذ کرنے پر تاکید کرتا ہے۔ ان حالات میں دونوں فریق کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور کے مطالبات کے درمیان گہری کھائی وجود میں آ گئی۔