الوقت - امریکا کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ایران کی فوجی اور سیاسی قیادت کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکا کے اس فیصلے سے کچھ افراد کو تو حیرانی بھی ہوئی جس میں وائٹ ہاوس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا صدر باراک اوباما ایران کے خلاف عائد پابندیوں کی مدت میں توسیع کے قانون پر دستخط کر دیں گے لیکن ان حیران ہونے والے افراد کو ایرانی فریق کے بارے میں اچھی طرح پتا نہیں ہے۔
کچھ افراد کہ گمان کر رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ نے ایرانی فریق کو بہت بڑا دھوکہ دیا لیکن ایٹمی معاہدے کے شروعات سے ہی ایرانی حکام کا یہ خیال رہا ہے کہ تہران، زمانے قدیم سے واشنگٹن کے نفاق اور اس کی شیطنت سے واقف ہے لیکن ان بنیاوں پر رای عامہ کے سامنے واشنگٹن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی تاہم جب تک ٹھوس اور محکم دلیل نہ ہو۔
ماضی کا ایرانی تجربہ :
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے متعدد خطابات میں امریکا کے مکر وفریب کی جانب اشارہ کیا ہے۔ 21 مارچ 2015 کو آپ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ امریکی حکام بارہا یہ تاکید کر رہے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کے بعد ایرانی حکام کے سلوک اور ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو پابندیاں ختم کی گئی ہیں وہ ایٹمی معاہدے کے نتیجے میں نہیں تھیں۔ ایٹمی معاہدے کے چھ مہینے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے سوال کیا کہ کیا یہ طے نہیں تھا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد ظالمانہ پابندیاں ہٹا لی جائیں گی تاکہ ایرانی عوام اس کا احساس کر سکیں۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ امریکی انتخابات کے امیداور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران ایٹمی معاہدے کو پارہ کرنے کی بات کہہ دی۔ ٹرمپ کے اس بیان پر ایرانی حکام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہيں کر رہے ہیں اور اگر فریق مقابل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جیسا کہ امریکی صدارتی امیدوار نے معاہدے کو پارہ کرنے کی دھمکی تھی، اگر انہوں نے ایسا کیا تو ہم معاہدے کو آگ لگا دیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا نے ایٹمی معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے اور ایران کے خلاف پابندیوں کی مدت میں دس سال کی توسیع بھی کر دی گئی اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو ایران کی جانب سے دندان شکن جواب دیا جائے گا۔
معاہدے کی خلاف ورزی :
امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پابندی کے قانون آئی ایس اے کی مدت میں دس سال کی توسیع کا قانون منظور ہو گیا۔ اس قانون کے حق میں 99 ووٹ اور مخالفت میں 1 ووٹ پڑا۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے لئے امریکی صدر باراک اوباما کے دستخط ضروری ہیں۔
امریکا کا یہ قدم جے سی پی او کی شقوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایٹمی معاہدے کی 5ویں شق میں ذکر کیا گیا ہے کہ جے سی پی او اے کی بنیاد پر جو قانون ختم ہوئے یا روکے گئے ہیں ان کو دوبارہ نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی سینیٹ نے جو کام کیا ہے وہ جے سی پی او اے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایران کے خلاف پابندیاں یا ڈیموٹو کے نام سے مشہور قانون بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ایٹمی معاہدے کی رو سے 1 - 2 - 4؛ 1 - 3 - 4؛ 2 - 3 - 4؛ 4 - 3 - 4 اور شق 2 - 1 - 4 شقیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن امریکی سینیٹ نے مذکورہ قانون کو منظور کرکے ایٹمی معاہدے کی 26ویں شق کو پھر سے بحال کر دیا۔
اوبامہ کیا کر سکتے ہیں ؟
ایران کے خلاف پابندی ایکٹ پہلی بار 1996 میں منظور کیا گیا جس کا ہدف ایران کے تیل اور گیس کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکنا تھا۔ اس کے بعد اس قانون کی مدت میں 2006 میں توسیع کی گئی جو 2016 کے آخر میں ختم ہو رہی تھی۔ آئی ایس اے کو امریکی سینیٹ کی جانب سے فیصلہ کن حمایت کے مد نظر اگر امریکی صدر باراک اوباما کو قانون کو ویٹو بھی کر دیں تب بھی وہ اسے قانون بننے سے نہیں روک پائیں گے جیسا کہ "جسٹا" قانون کے بارے میں ہوا کہ یہ قانون امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ویٹو کے باوجود دو تہائی اکثریت سے منظور ہوا۔ امریکی آئین کے مطابق اگر امریکی صدر کسی قانون کے ویٹو کر دے اور پھر اس قانون کے خلاف امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہو تو وہ قانون صدر کی مخالفت کے باوجود قانونی شکل اختیار کر لے گا۔
نتیجہ :
امریکا کی خواہش ہے کہ ایران اپنے میزائل پروگرام کو روک دے اور غاصب صیہونی حکومت کے بارے میں اپنے نظریات تبدیل کر دے۔ طبیعی ہے کہ ایران، امریکا کی اس میں سے کوئی بھی خواہش پوری نہیں کرے گا اور جے سی پی او اے کو وہ اختلافات ختم کرنے کے لئے نیک نیتی سے اٹھایا گیا قدم مانتا ہے۔ جیسا کہ ایران سے تاکید کی ہے کہ اگر امریکا کی جانب سے پابندیاں جاری رکھنے کی کوشش کی کئی تو تہران اپنے پر امن ایٹمی پروگرام کی جانب لوٹ جائے گا۔