الوقت - موصل سٹی کی آزادی کا آپریشن عراقی سیکورٹی فورس کی جانب سے جاری ہے۔ کیونکہ امریکا کے ایک منصوبے کے تحت میدان جنگ اور شام کے صحراء بغیر سیکورٹی کے ہی چھوڑ دیئے گئے تھے۔ امریکا کے منصوبے کی بنیاد پر اس راستے کو داعش کے جنگجوؤں کے شام میں اپنے محفوظ مقام کی جانب فرار ہونے کے لئے کھلا رکھا گیا تھا تاکہ یہ گروہ شام میں موجود دہشت گرد گروہوں کی صف میں شامل ہوکر اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو پھر سے حاصل کر لیں اور طاقت کا توازن شام کی فوج کے نقصان میں تبدیل ہوجائے۔
بتایا جاتا ہے کہ حالیہ دو سے تین مہینے کے دوران شام کی فوج نے روس کی فوج کی فضائی حمایت سے شام کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر خاص طور پر حلب میں شدید حملے کئے۔ اس طرح سے یہ گروہ شام کی جنگ کے آغاز سے اب تک کی سب سے بدترین حالت میں پہنچ گیا۔ اسی بنیاد پر امریکا اور اس کے علاقائی اتحادیوں یعنی سعودی عرب اور ترکی نے موصل سٹی کی آزادی کی مہم کے تناظر میں ایک منصوبہ تیار کیا جس کا ہدف دہشت گردوں کو معین راستوں سے شام فرار کرانے میں مدد کی جائے تاکہ حالات اپنی قدیمی صورتحال پر پہنچ جائے اور وہ شام کے میدان جنگ میں شکست سے نجات پا جائیں۔
لیکن عراق کی رضاکار فورس یا حشد الشعبی نے جو امریکی دباؤ میں واضح طور پر موصل کی مہم سے ہٹا دی گئی تھی تاکہ موصل کے سنی آبادی والے علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں سے ظاہری طور پر تشویش میں مبتلا نہ ہوں، امریکی منصوبے کو درک کرتے ہوئے عراق کی مرکزی حکومت کی مکمل ہماہنگی سے تلعفر میں ایک فرعی مہم شروع کی جس کا ہدف تھا داعش کے فرار ہونے کے راستے کو بند کرنا تھا۔ یہ عمل امریکا کی مرضی کے مطابق نہیں تھا خاص طور پر اس کے علاقائی اتحادی ترکی کے لئے۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ رضاکار فورس کے جوان تلعفر اور ترکمن اکثریت والے موصل کے مغربی شہر سے 35 کیلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ گئی ہے۔ ماضی میں اس شہر میں داعش اور القاعدہ کا بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا اور یہ سنی دہشت گردوں کے آشیانے کے نام سے مشہور تھا۔ 2014 میں موصل پر داعش کے قبضے کے پہلے تک تلعفر میں تقریقا دو لاکھ افراد رہتے تھے جن میں زیادہ تر ترکمن تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک چوتھائی شیعہ اور باقی سنی تھے لیکن 2014 میں شہر پر داعش کے قبضے کے بعد سے اس شہر سے مکمل طور پر شیعوں کو باہر نکال دیا گیا۔
عراق کی رضاکار فورس نے اب تک بہت سے صحرائی شہروں کو جہاں سے داعش کے دہشت گرد شام سے موصل میں خودکش حملہ آوروں کو آنے میں مدد کرتے تھے، آزاد کرا لیا ہے۔ موجودہ وقت میں شیعہ اتحادی فورسز ان علاقوں میں بر سر پیکار ہے، جہاں پر امریکی فوجیوں نے خدمات انجام دی ہیں اور ہر امریکی فوجی کا نام سن کر در و دیوار لرز اٹھتے تھے۔ ان گاؤں مین تل ضلات، سحاجی، محللبیہ اور تل ابتا کے ناموں کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حشد الشعبی کے اس اقدام نے امریکا سے زیادہ ترکی کی ناراضگی میں اضافہ کر دیا۔ ترکی نے دعوی کیا تھا کہ اگر تلعفر میں رضاکار فورس داخل ہوئی تو علاقائی ترکمن باشندوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔