الوقت - بحرین میں 11 فروری 2011 میں آغاز ہونے والے عوامی مظاہرے بدستور جاری ہیں اور آل خلیفہ حکومت امریکا اور سعودی عرب کی بھرپور حمایت سے متعدد حربوں سے انقلابیوں کے جائز اور قانونی مطالبات کا مقابلہ کر رہی ہے جن میں سب سے اہم ملک کے قانونی ڈھانچے خاص طور پر آئین میں اصلاح ہے۔ ان سب حربوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا کہ ملک میں ماحول پرامن ہے۔ آل خلیفہ حکومت کے اقدامات میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ اس نے بحرین کے حالیہ واقعے کو فرقہ واریت کا جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ حکومت بحرین نے میڈیا کو سینسر کردیا اور عوامی مظاہروں کو ایران اور لبنان سے جوڑنے کی کوشش کی اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ملک کی مشہور شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس طرح سے اب تک بہت سے سابق رکن پارلمینٹ، مذہبی رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، ڈاکٹرز اور عوام شہری حتی خواتین اب تک جیلوں میں بند ہیں۔
عوام مظاہروں اور عوام کے مطالبات کو پورا نہ کرنے کے اقدامات کے نتائج سے بے خبر آل خلیفہ حکومت نے آخر میں بحرین کے ممتاز عالم دین شیخ عیسی قاسم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس نے گمان کیا کہ ان اقدامات سے وہ بحرین کے عوام کے انقلابی امنگوں کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گي اور ان کے حامیوں کو مظاہروں سے باز رکھ سکے گی لیکن آل خلیفہ کا یہ بغیر سوچا سمجھا قدم حکومت کی گلے کی پھانس بن گیا۔ اس بنیاد پر حکومت یہ سوچ رہی تھی کہ ایک انقلابی رہنما کو عوام سے دور کرکے انقلاب کے تمام راستوں کو بند کر دیا جائے گا لیکن آل خلیفہ نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کا یہ قدم، آگ میں گھی کا کام کرے گا اور عوام کے پر امن مظاہروں کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا۔
گرچہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شیخ عیسی کی گرفتاری کے بعد علاقائی اور عالمی سطح پر اسے جو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کی توقع کے برخلاف تھا، اس نے کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا کہ اس کے اس قدم سے پوری دنیا میں ہنگامہ مچ جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ شیخ عیسی قاسم کی گرفتاری کے چار مہینے بعد بھی وہ شیخ عیسی کے خلاف کسی بھی طرح کے مقدمہ کی سماعت میں کامیاب نہیں ہوا۔ مقدمہ کی تاریخ جب بھی نزدیک آتی ہے کسی نہ کسی بہانے سے اس کی تاریخ کو ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی حکومت نے بہانہ بنایا کہ عدالت میں درخواستوں کی زیادتی کی وجہ سے شیخ عیسی کے خلاف مقدمہ کی سماعت کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اس موضوع سے پتا چلتا ہے کہ حکومت منامہ کو اچھی طرح پتا ہے کہ عوام میں شیخ عیسی قاسم کتنے محبوب ہیں اور اگر اس نے شیخ عیسی کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی اور ان کو کوئی سزا سنائی تو عوامی مظاہرے کنٹرول سے باہر نکل جائیں گے کیونکہ انقلاب کو پرتشدد بنانا ان کے مفاد میں نہیں ہے اور شیعہ علماء اور رہنماؤں پر مقدمہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شیخ عیسی کی گرفتاری اور ان کی شہریت کو سلب کرنے کے بعد الوفاق سمیت ملک میں انقلابی جوانوں کے اتحاد نے حکومت کو تشدد کے تمام آپشن اختیار کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔
اس بات کے علاوہ حزب اللہ لبنان، عراق کے صدر دھڑے، تحریک انصار اللہ سمیت تمام دھڑے اور ایران ہمیشہ سے بحرین کے عوامی انقلاب کے حامی رہے ہیں اور انہوں نے آل خلیفہ حکومت کو کسی بھی طرح کے احمقانہ اقدام سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔