الوقت - عراق کے شہرموصل میں مدتوں سے ایک تحقیق ہو رہی تھی جس کا مقصد یہ پتا کرنا تھا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اتنی بڑی مقدار میں ہتھیار کیسے لگے۔ اس تحقیقات کے سربراہ جیمز بون کا کہنا تھا کہ آج تک عالمی برادری اس حقیقت سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھی کہ یہ ہتھیار جنگ زدہ علاقوں میں کیسے پہنچے۔ اس تحقیقاتی ٹیم نے ان علاقوں میں تحقیقات کا آغاز کیا جو داعش کے قبضے سے آزاد ہوئے ہیں۔ ٹیم کے مطابق، بموں اور گولوں پر لگی علامتوں سے اس کی حقیقت کا پتا لگایا جا سکتا ہے لیکن دھماکہ خیز مواد کی خالی تھیلیاں زیادہ کارآمد ہیں۔
ان تھیلیوں پر ان کی پیداوار کی تاریخ اور سیریل نمبر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ زیادہ اہم ہیں۔ اس تحقیقاتی ٹیم نے جو اطلاعات حاصل کی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ تحقیقات کا میدان بہت وسیع ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم نے اس بات کا جایزہ لیا کہ کس طرح یہ ہتھیار اور گولہ بارود کارخانوں سے جنگ زدہ علاقوں میں پہنچے۔ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ داعش نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی پیداوار کی بے پناہ کوشش کی ہے اور ان علاقوں میں ہینڈ گرینیڈ بنانے کے مراکز قائم کئے لیکن کچھ ہتھیار اور گولہ بارود ایسے بھی تھے جو عراق سے باہر سے آئے تھے۔
ان ہتھیاروں میں بڑی مقدار میں کیمیائی ہتھیار بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہ چیزیں ترکی میں بازاروں میں فروخت ہوتے تھے اور اب موصل میں داعش کے ہاتھ پہنچ گئے وہ بھی بڑی زیادہ مقدار میں۔
موصل کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس نیٹ ورک کا جنوبی ترکی میں کافی عمل دخل ہے، اس دہشت گرد گروہ کے ان مواد کے سپلائرز کے ساتھ بہت گہرے اور خفیہ رابطے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ داعش کو اپنے جنگجوؤں کو مسلح کرنے اور انہیں متعدد ہتھیاروں سے لیس کرنے میں کسی بھی طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں ہے، ان ہتھیاروں میں سے بڑی تعداد جنگ زدہ علاقوں میں ارسال کی گئیں وہ بھی ان افراد کے ذریعے جو داعش سے مقابلے کر رہے ہیں۔