الوقت - امریکی صدر باراک اوباما کے 8 سالہ دورہ اقتدار میں امریکا اور ترکی کے تعلقات میں بہت زیادہ نشیب و فراز رہا ہے۔ یہ تعلقات خاص طور پر ترکی میں ہوئی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اور واشنگٹن کی جانب سے اردغان کی واضح حمایت نہ کئے جانے کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوگئے۔ اس کا ایک سبب تھا کہ واشنگٹن نے اردغان کی فتح اللہ گولن کو حوالے کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے واقعے کے بعد ترک حکومت کو اس سے پہلے تک روس کے سوخوئی-24 طیارے کو مار گرانے کی وجہ سے ماسکو کے ساتھ چیلجز کا سامنا کر رہے تھے، روس سے نزدیک ہوئے تاکہ وائٹ ہاوس پر دباؤ ڈالنے کے لئے روس کو حربے کے طور پر استعمال کرے۔
در ایں اثنا اوباما کی حکوت نے جو مشرق وسطی میں اپنے ایک قابل اعتماد اتحادی کے طور پر ہمیشہ ترکی پر نظر رکھے ہوئے تھی، شمالی شام اور موصل میں فوجی کاروائی کرنے کے لئے انقرہ کے ہاتھ کھلے رکھ کر حالات کو تبدیل کر دیا۔ اس طرح سے شامی کردوں کی کھلی حمایت کو ترکی کی مخالف کی وجہ سے کچھ حد تک کم کر دیا۔
ان سب کے باوجود جو چيز مشخص ہے وہ یہ ہے کہ اب انقرہ اور واشنگٹن کے تعلقات اپنے قدیمی حالات پر کبھی بھی واپس نہیں جا سکتے اور دونوں فریق کے درمیان شگاف برقرار رہے گا۔ ابھی واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات بہتر بھی نہیں ہوئے تھے اور کشیدگی بدستور جاری تھی کہ امریکا میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف ہلیری کلنٹن کو کریشمائی طریقے سے شکست دے دی۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان تعلقات کے نئے دور کی باتیں ہونے لگیں اور اس حوالے سے متعدد تجزیے لکھے گئے۔ اگر چہ اس درمیان انقرہ نے ٹرمپ کے انتخاب کی حمایت کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی جلد بازی کے رد عمل سے پرہیز کیا کیونکہ اس کے ابھی پتہ نہیں ہے کہ ٹرمپ، ترکی کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں۔
ان حالات میں اور انتخاباتی مہم کے دوران ٹرمپ کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا اور ترکی کے تعلقات کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا وقت سے پہلے ہے۔ اس کے باوجود موجودہ وقت میں شام میں داعش سے مقابل کے لئے کرد ملیشیا کی مدد میں اضافے کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات کی وجہ سے ترک حکام تشویش میں مبتلا ہیں۔ در حقیقت ترک حکام، شام میں کردوں کے طاقتور ہونے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ اس حالات میں اس ملک کی جنوبی سرحد پر کردیوں کے دوسرا خودمختار علاقہ وجود میں آ نے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ترک حکام کو پتا ہے کہ ملک کی جنوبی سرحد پر دوسرے خود مختار علاقے کے وجود میں آنے کی صورت میں ترکی کے کرد اکثریتی صوبوں میں سیاسی حالات خطرناک ترین اور حساس ترین مرحلے میں پہنچ جائیں گے۔ اس بنیاد پر یہ پیشنگوئی کی جا سکتی ہے کہ ترکی، کردوں کو طاقتور بننے سے روکنے کے لئے سیاسی میدان میں ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے گا گرچہ اس حوالے سے انقرہ اور واشنگٹن کے تعلقات مزید کشیدہ ہو جائے۔
بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن اور انقرہ کے دیرینہ اور اسٹرٹیجک تعلقات اور اسی طرح امریکا سے نزدیک ہونے کے لئے ترکوں کا رجحان، فریقین کے تعلقات کی بہتری مناسب موقع ہموار کرے گی لیکن کہ ٹرمپ کردوں کی سنجیدہ حمایت کریں یا یورپی یونین سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ان دو حالات میں امریکا اور ترکی کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ترکی، ماسکو کی جانب مائل ہونے کے لئے سنجیدہ قدم اٹھائے۔