الوقت۔صیہونی اخبارات میں جہاں ایک طرف تو امریکا کے صدارتی انتخابات اور ان کے نتیجے میں صیہونی نواز ریپبلیکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کی خبروں کا زور ہے، تو دوسری طرف صیہونی میڈیا میں یہ بات بڑی شد و مد کے ساتھ زیر بحث ہے کہ آیا صیہونی حکومت مقبوضہ بیت المقدس کی بعض مساجد میں اور بعض میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر پائے گی یا نہیں؟۔
عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘نے اپنی رپورٹ میں بھی اسی سوال کو ایک بار پھر اٹھایا ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب دیا ہے کہ ’ہاں صیہونی کابینہ آئندہ اتوار کو حتمی طور پر فیصلہ کرے گی کہ آیا بیت المقدس میں موجود فلسطینیوں کی مساجد بالخصوص مسجد اقصی میں اذان پر پابندی لگائی جائے یا نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کے ارکان کی اکثریت اس مسودہ قانون کی حمایت کے لئے تیار ہیں جس میں بیت المقدس کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
یوں توغالبا امکان یہی ہے کہ صیہونی کابینہ آئندہ اتوار کے روز ہونے والے اجلاس کے دوران اس متنازع قانون کی بھی منظوری دے گی جس کے تحت پولیس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیت المقدس کی تمام مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی کو یقینی بنائے اور لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے والے مؤذنین کو حراست میں لیکر ان کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت ماضی میں بھی بیت المقدس میں مساجد میں اذان کی ادائی پر پابندی عائد کرتی رہی ہے۔ مگر اب کی بار ’’قانون انسداد شور غل‘‘کی آڑ میں مساجد میں اذان پر پابندی کی نئی اور خطرناک سازش تیار کی جارہی ہے۔ صیہونی ریاست کی جانب سے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ چونکہ بیت المقدس کی مساجد میں بڑی تعداد میں ایک ہی وقت میں اذان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے ماحولیات پر منفی اثر پڑنے کے ساتھ ساتھ یہودی آبادی بھی شور شرابے سے متاثر ہوتی ہے۔ یہودیوں کے آرام و سکوں میں خلل پڑتا ہے ۔