الوقت۔ ایک امریکی ماہر سیاسیات نے نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو واشنگٹن مدعو کئے جانےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دعوت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ واشنگٹن مسلسل ناجائز صیہونی حکومت کے اشاروں پر کام کرتی رہے گی۔
ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹرویو میں پال لارودی نے ایرانی میڈیا کے ساتھ مختصر انٹرویو میں امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو مدعو کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر سیاستدانوں اور سابق صدور کی طرف ڈونالڈ ٹرمپ بھی غاصب صیہونی حکومت کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا صیہونی حکومت کے ساتھ گہرا گٹھ جوڑ رہا ہے اور نو منتخب امریکی صدر کو بہت جلد یہ احساس ہوگا کی اسرائیل کی حمایت کیلئے صیہونی حکومت کی حمایت کئے بغیر وہ اپنے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو موجودہ انتظامیہ یا ریپبلکن پارٹی کے ماہر کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے اپنے قابل اعتماد افراد کو اپنی نئی انتظامیہ میں شامل کرنا چاہئےاور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ان کے روئےپر بہت کچھ چیزوں کا انحصار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ اپنی انتظامیہ میں قدامت پسند اور صیہونی نواز شخصیتوں سے دور رکھتے ہیں پھر کسی اچھی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ نمٹنے کا ٹرمپ کا پورا تجربہ نہیں تاہم انہیں سخت فیصلہ لینے کیلئے جانا جاتا ہے۔