الوقت- اردن میں ایران کے سابق سفیر نصر اللہ تاجیک نے الوقت سے گفتگو میں لبنان میں صدر منتخب ہونے کی اہمیت پر تاکید کی اور کہا کہ یہ مفاہمت اور انتخاب بہت ہی حساس حالات میں ہوا ہے کہ اگر یہ انتخاب نہ ہوتا تو لبنان بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا اور داعش جیسے خطروں اور داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جاتا۔ اس انتخابات کے نتیجے میں صدر جمہوریہ کے ساتھ داخلی اور خارجی تاثیر گزار شخصیتیں ملک کر جو حکومت تشکیل دیں گے اس سے لبنان بہت ہی اچھی صورتحال میں پہنچ سکتا ہے۔
نصرت اللہ تاجیک کا خیال ہے کہ حزب اللہ نے بھی ان حالات میں کامیاب ہونے کے باوجود لبنان کی داخلی پارٹیوں کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک متوازن سیاست کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ اردن میں ایران کے سابق سفیر کے مطابق اگر میشل عون ایک حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کی حکومت لبنان کے عوام کے لئے ایک کامیاب حکومت ثابت ہوتی ہے تو حزب اللہ اور ملک کے اندر تمام پارٹیوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا اور ملک موجودہ بحران سے باہر نکل جائے گا۔
الوقت - لبنان میں سیاسی بحران کو دو سال ہوگئے اور آخرکار گزشتہ ہفتے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے صدر جمہوریہ کے نام پر میشل عون کی تائید کر دی۔ لبنان میں سیاسی خلاء کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب - لبنان ایک فرقہ وارانہ طاقت کی تقسیم پر مشتمل ایک نظام ہے اور اس حکومتی نظام کی خصوصیات یہ ہے کہ یہاں پر فرقہ اور اکثریت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ لبنان کے آئین کے مطابق صدر مملکت عیسائی ہوگا جبکہ وزیر اعظم اہل سنت سے ہوگا اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ جماعت سے ہوگا۔ دو سال پہلے سے یعنی 2014 کے وسط سے سعودی عرب کی تخریبی سیاست کی وجہ سے یہ ملک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا تھا کیونکہ سعد حریری سعودی پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرتے تھے اور اس کے طرفدار کی حمایت کر رہے تھے۔ اسی لئے صدر منتخب کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں کئی اجلاس ہوئے لیکن سب ناکام رہے۔
الوقت - کیا سبب تھا کہ لبنان کی تمام سیاسی جماعتوں نے میشل عون پر اتفاق کر لیا ؟
جواب : اچھی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کی خراب اقتصادی صورت حال اور ریاض کی جانب سے سعد حریری کی مالی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعد حریری ان حالات میں سعودی عرب کی جانب سے کسی حد تک ناامید ہوگئے ہیں اور عقل کے ناخن لینے لگے۔ یعنی سعد حریری کو سمجھ میں آگیا تھا کہ مصالحت سے ہی حکومت میں جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے حزب اللہ نے شروع سے ہی صدارتی امیدوار کے لئے اپنی طرف سے میشل عون کا نام پیش کیا تھا جبکہ سعد حریری اس کی مخالفت کرنے لگے۔ بہر حال میشل عون نے 127 ووٹوں میں سے 85 حاصل کر لی اور لبنان کے صدر منتخب ہوگئے۔
الوقت - موجودہ لبنانی صدر کو کن کن مسائل کا سامنا ہوگا؟
جواب : اس بات تو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ میشل عون کے صدر بننے کے بعد ان کے سامنے بہت سے مسائل ہیں۔ ان میں علاقائی، بین الاقوامی اور داخلی مسائل بھی شامل ہیں۔ ایک طرف تو انہیں صیہونی حکومت کا چیلنج ہے جس نے لبنان کی سرزمین، پانی اور ذخائر پر قبضہ کر رکھا ہے اور دوسری جانب شام اور مہاجرت کا مسئلہ ہے۔ بہر حال اس وقت علاقے اور علاقے کی باہر کی تمام تر طاقتوں کو ان مسائل کے حل کے لئے لبنان کی مدد کرنی چاہئے تاکہ لبنان ان مسائل پر کامیاب ہو سکے۔