الوقت - ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات گرچہ انقلاب اسلامی کے آغاز سے ہی کشیدہ اور غیر دوستانہ رہے ہیں لیکن مختلف مقامات پر خاص موضوع کے بارے میں ان اختلافات کا منظر عام پر مشاہدہ کیا گیا۔ ان واقعات میں سانحہ منا یا اسلامی بیداری کی تحریک میں ان کا مشاہدہ کیا جا سکا۔ یمن جیسے کچھ ممالک میں تہران اور ریاض کے مفاد آپس میں ٹکراتے نظر آئے اور دونوں ملک کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔
در ایں اثنا ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے اصل اسباب میں سے ایک داعش کا ظہور اور علاقے خاص طور پر شام اور عراق سے مزاحمت کے مرکز جیسے جغرافیائی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے افکار کا مضبوط ہونا ہے کیونکہ داعش کا وجود وہابی اور دہشت گردانہ نظریات کا حامل ہے، فریقین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوئے علاقائی سطح پر سیکورٹی اور سیاسی زور آزمائی کا سلسلہ شروع ہو گيا۔
اسی بنیاد پر تہران نے عراق اور شام کے بحران کے آغاز سے ہی واضح اور شفاف پالیسی اختیار کی اور تہران نے شروع سے ہی کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی، ایران اور اس کے اتحادیوں کی قومی سیکورٹی کے لئے شدید اور براہ راست خطرہ ہے۔ ایران نے شام اور عراق کے بحران کے شروعاتی مہینے میں ہی کہہ دیا تھا کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہے اور یہ وبلا کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہے گی۔ اس مسئلہ میں ایران اور سعودی عرب کی سربراہی میں کچھ علاقائی ممالک کے رویے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ چونکہ سعودی عرب نے ابھی تک کبھی بھی باضابطہ یا غیر سرکاری طور پر داعش اور دہشت گردی کی مذمت تک نہیں کی بلکہ اس نے کبھی بھی اس مسئلے کو ریاض کے خلاف فوری اور براہ راست خطرہ تصور نہیں کیا۔ ریاض نے ہمیشہ داعش اور دہشت گردی کو کم کرنے پر گفتگو کی نہ کہ اس کی نابودی اور خاتمے کی۔
لیکن دوسری جانب، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے بارے میں سعودی عرب کے نظریات ہمیشہ سے غیر شفاف اور مبہم رہے ہیں۔ ایک طرف تو سعودی عرب، ملک اور اپنے اتحادی ممالک میں موجود تکفیری اور جہادی گروہوں کے نشانے پر اور ان کا اصلی دشمن سمجھا جاتا ہے اور یہ گروہ سعودی عرب کو امریکا اور کفار کا اتحادی قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب ریاض نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے ان گروہوں کو خود سے اور اپنے اتحادیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے اور افغانستان اور عراق جیسے ممالک اور موجود وقت میں شام میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ان تکفیری اور جہادی گروہوں جو سعودی عرب کے اصل دشمن سمجھے جاتے ہیں، سعودی عرب سے دور علاقوں میں جنگوں میں مشغول کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب نے ان گروہوں کو ایک پیچیدہ قبائلی ڈپلومیسی کے ذریعے اپنی پالیسی کو آگے بڑھانے اور علاقے میں اپنے تمام دشمنوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس لحاظ سے داعش اور نصرہ فرنٹ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو خاص طور پر 2012 میں اس گروہ کے ساتھ ایک مصلحت آمیز اور موقتی شادی کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے شام اور عراق کے قبائلی عمائدین میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرکے داعش کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا اور ایران اور شیعوں کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرنے کے لئے ان کو تیار کیا اور ایران اور شیعوں کو داعش کا نمبر ایک کا دشمن قرار دیا۔
بہرحال حالیہ دو برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے سبب داعش نے سعودی عرب سے کچھ دوری اختیار کر لی ہے اور اس کی جگہ نصرہ فرنٹ نے لے لی ہے۔ موجود وقت میں سعودی عرب کھل کر نصرہ فرنٹ کی حمایت کر رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے امریکا کو بھی اس کے لئے آمادہ کر لیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ تکفیری اور جہادی گروہوں کے بارے میں ایران اور سعودی عرب کے نظریات پوری طرح سے متفاوت ہیں۔