الوقت – مشرق وسطی کا علاقہ گزشتہ پانچ سے دس برسوں کے دوران ہمیشہ سے عظیم تبدیلوں کا مرکز رہا ہے کیونکہ یہ علاقہ روزانہ ہی نئے بحرانوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ در ایں اثنا داعش کا وجود ہوا اور اس کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ بڑھتی گئیں اور فرقہ وارنہ تشدد میں عدیم المثال اضافہ ہوا اور بہت سے ملک تجزیہ کے دھانے پر پہنچ گئے۔
یہ بحران اتنے زیادہ بااثر اور گہرے ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطی ہی ان سے صرف متاثر نہیں ہوا پوری دنیا اس سے متاثر ہوگئی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطی کا بحران ممکنہ طور پر خود ہی دنیا کے اچھے اور برے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔ یعنی مشرق وسطی میں ہونے والا ہر مسئلہ پوری دنیا پر اثرات مرتب کر رہا ہے اور علاقائی کشیدگی اور مسائل صرف علاقے تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔
ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں تین نظریات وجود میں آ رہے ہیں جو بلند مدت میں علاقے اور پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرسکتے ہیں :
1- غیر سرکاری افراد کی مرکزیت والی حکومت کے ڈھانچے کا زمانہ ختم : دوسرے بازيگروں کے طاقتور بننے سے علاقے میں حکومت کے ڈھانچے میں کمزوری اور اس کے نتیجے میں حکومت کی ماہیت کے بجائے مذہبی، ثفافتی اور دیگر عناصر کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ اہم خصوصیت شام، عراق، لیبیا اور یمن جیسے جنگ زدہ ممالک قابل مشاہدہ ہے۔ اسی طرح لبنان، اردن اور سعودی عرب اور فلسطینی انتظامیہ اور غزہ پٹی میں حماس کے یہاں اس طرح کی خصوصیات کا مشاہدہ کیا؛ جا سکتا ہے۔ علاقے میں قدیمی حکومت کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کے باوجود یہ موضوع کوتاہ مدت میں غیر ممکن ظاہر ہوتا ہے اور نظم و ضبط کے قیام اور تبدیلیوں کے لئے ضروری ہے کہ علاقے میں نیا خاکہ وجود میں آئے۔
2- کوتاہ مدت تعاون کی قراردادوں میں روز بہ روز ناکامی اور ناپائدار میں اضافہ :
علاقے میں پھیلی افراتفری کے بعد، تمام بازیگر زیادہ سے زیادہ کوتاہ مدت تعاون کی قرارداد پر اعتماد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شام میں متحارب فریقوں کے درمیان میں گہرا اتحاد، میدان جنگ میں پشرفت اور خارجی حمایت سے کافی متاثرہے۔ ممالک کے درمیان یہ تعلقات کا ٹوٹنا بھی قابل توجہ بھی ہے ۔ چنانچہ ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدہ، صرف پندرہ سال کا ہی کھیل ہے اور یہ وہی سبب ہے جس نے بلند مدت سمجھوتوں کی جگہ کوتاہ مدت سمجھوتوں کو اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
3- اپنے اسٹراٹیجک اہداف کے حصول کے وسیلے کی حیثیت سے ہوشیاری :
حالیہ عشروں کو متعدد قومی دشمنوں خاص طور پر داعش کے دہشت گردوں کی توسیع کے غیر مساوی جنگ کے میدان میں عام فوجیوں کی جنگوں کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس چیز ہو عام طور پر ہوشیاری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کی اہم مثال، رعب و وحشت کی فضا کو پھیلانے کے لئے پوری طاقت کے ساتھ میڈیا کا استعمال کرکے دولت اسلامی کی تصویر کشی کرنا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے بھی اسی روش کا استعمال کیا جسے عالمی سطح پر اسرائیل کو کمزور کرنے کی جہت میں اس بازیگر کی کوششوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں مشرق وسطی ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جس کی اپنی الگ ہی خصوصیت ہے اور موجودہ عمل علاقے کا مستقبل تعین کرنے والا ہے۔ بہرحال یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ علاقے نے اپنے لئے کون سا مستقبل منتخب کیا ہے۔