الوقت - گزشتہ ہفتے قبلۂ اول کو صیہونی حکومت کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانے کے لئے برسوں سے جاری مسلمانان عالم کی تحریک کو اس وقت اہم کامیابی ملی جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس و ثقافت "یونیسکو" نے ایک قرارداد منظور کی جو مسجد الاقصی اور اس کے متعلقات پر صیہونی قبضے کے باطل ہونے سے متعلق تھی۔ قرارداد کے حق میں یعنی مسجد الاقصی پر مسلمانوں کے دعوے کے درست اور مبنی بر حق ہونے کے حق میں24 ووٹ پڑے جبکہ 6 ووٹ اس کی مخالفت میں دیئے گئے۔
26 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ 2 ممالک غیر حاضر رہے۔ جن ملکوں نے قرارداد کی تائید اور حمایت میں ووٹ دیا ان میں ایران، الجزائر، بنگلہ دیش، عمان، پاکستان، قطر، مصر، ملئیشیا اور لبنان جیسے مسلم ممالک ہی نہیں، ڈومینکن ری پبلک، نکارا گوا، سنیگال، ویتنام،چاڈ اور چین جیسے ممالک بھی تھے۔ اس سے فلسطین کے مسئلے میں صیہونی حکومت کی دھاندلی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر اس کے ناجائز قبضے کی برسوں سے جاری تحریک کی اثر پزیری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس تحریک سے دنیا کے گوشے گوشے میں رہنے اور بسنے والے مسلمان اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں ۔
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس قرارداد کا کتنا اثر ہوتا ہے اور اس سے زمینی حالات میں کس حد تک تبدیلی واقع ہوتی ہے لیکن سر دست اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ صیہونی حکومت کی آمریت، منافقت اور شیطنت کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ اپنی سیاسی، سفارتی، مالی اور فوجی طاقت کے باوجود عالمی ادارہ میں اس کے خلاف اکثریتی ووٹوں سے کسی قرارداد کا منظور ہو جانا عالمی سطح پر اس کی ہتک، رسوائی اور اسکے مبنی بر غلط ہونے کی غمازی کرتا ہے لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں، صیہونی حکومت کو زیر کرنا کوئی بڑا کام نہیں ہے بشرطیکہ وہ ممالک جو اس کی پشت پناہی کرتے ہیں، علاحدہ ہو جائیں۔ مثال کے طور پر یورپی و دیگر ممالک اور امریکا اس کی حمایت اور دفاع سے دسبردار ہوجائیں لیکن مسلم دنیا میں چونکہ خلفشار پیدا کرنے اور پھیلانے کے لئے صیہونی حکومت ایک اہم حربہ ہے اس لئے کب یہ ممکن ہے کہ مذکورہ ممالک صیہونی حکومت کے لاڈ و پیار میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کریں!
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرارداد بڑے شاندار طریقے سے منظور ہوگئی لیکن جہاں اس میں فرانس اور سویڈن جیسے ممالک غیر حاضر رہے وہیں برطانیہ اور امریکا نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس سے ان کے عزائم کی پول کھل جاتی ہے۔ یہ ممالک اور ان کے اہل اقتدار کبھی نہیں چاہیں گے کہ کسی بھی عالمی فورم میں صیہونی حکومت کو نیچا دیکھنا پڑے ۔ چونکہ اکثریتی ووٹوں سے قرارداد منظور ہوگئی اور اب کچھ کیا نہیں جا سکتا تھا تو خود یونیسکو کی سربراہ ارینا بوکوا نے اظہار برأت کرلیا کہ اس سے ان کا نہ تو کوئی تعلق ہے نہ ہی وہ اس قرارداد کو تسلیم کرتی ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا بیان بھی وارد ہو گیا کہ وہ مسجد الاقصی اور بیت المقدس کو تینوں مذاہب کے ماننے والوں کا اثاثہ تصور کرتے ہیں۔
جب یہ منافقت ہوگی تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی قرارداد صیہونی حکومت کو اس کے ناپاک ارادوں سے باز رکھنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایسے میں صرف ایک متبادل باقی رہتا ہے اور وہ یہ کہ جن ملکوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے، وہ اس قرارداد کے نفاذ کی ذمہ داری بھی قبول کریں اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ واضح بھی کریں کہ ان کا تعاون محض ووٹ دینے تک محدود تھا یا وہ انصاف کے تقاضوں پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔ اگر وہ انصاف کے تقاضوں پر یقین رکھتے ہیں تو ان کی ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہیں اس وقت تک مسلمانان عالم کے جذبات کا ساتھ دینا پڑے گا جب تک مسجد الاقصی مکمل طور پر بازیاب نہیں ہوجاتی اور فلسطین پر سے صیہونی حکومت کا قبضہ ختم نہیں ہو جاتا۔