الوقت - ہندوستان میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے مذاکرات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان صرف نمائش کے لئے ہندوستان سے مذاکرات نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملک علامتی بات چیت سے آگے بڑھ کر بامقصد مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان کی ہندوستان کے سلسلے میں حکمت عملی میں پاکستانی فوج کا اہم کردار ہے۔
مذاکرات میں تعطل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک مذاکرات کے فریم ورک کی بات ہے اس مسئلے میں کوئی رکاوٹ یا تعطل نہیں ہے۔ عبدالباسط نے کہا کہ دسمبر 2015 میں جب ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا كانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد گئی تھیں تو دونوں ممالک کے درمیان فریم ورک پر اتفاق ہو گیا تھا جو کہ بڑا متوازن اور جامع لائحہ ہے لہذا اب سوال یہ ہے کہ سلسلہ شروع کس طرح کیا جائے۔
عبدالباسط نے کہا کہ جب بھی مذاکرات شروع ہوں اس کی بنیاد دسمبر میں ہونے والی مفاہمت ہی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان، افغانستان اور سیکورٹی امور میں پاکستانی فوج کا اہم کردار ہے اور یہ توقع رکھنا غلط ہے کہ ان مسائل میں فوج کا کوئی کردار نہ ہو۔
عبدالباسط نے صحافی سے یہ سوال پوچھا کہ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہندوستان، پاکستان کے بارے میں اپنی حکمت عملی فوج کو اعتماد میں لئے بغیر طے کر سکتا ہے؟
عبدالباسط نے کہا کہ اگر ہندوستان نے سرجیکل اسٹرائیک کیا ہوتا تو یقین رکھنا چاہئے کہ پاکستان فوری طور پر اس کا جواب دیتا کیونکہ ہمیں جواب دینے کے لئے کسی آمادگی کی ضرورت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں برہان وانی کو نواز شریف کی جانب سے شہید قرار دیئے کے سوال پر عبدالباسط نے الٹا سوال کر دیا کہ آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہزاروں لوگ جو برہان وانی کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے اور وہ سب دہشت گردی کے حامی تھے یا 8 جولائی کے بعد سے اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک اور 14 ہزار زخمی ہوئے، کیا وہ سب دہشت گرد تھے۔
عبدالباسط نے کہا کہ اگر آپ کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے چشمے سے دیکھیں گے تو ہمیشہ غلط نتیجے پر پہنچیں گے۔ کیا آپ جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا چاہتے ہیں؟