الوقت - شام کے بحران کے آغاز اور اس بحران میں روس کے براہ راست داخل ہونے سے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان دھمکی آمیز رویوں پر مبنی سرد جنگ شروع ہوگئي۔ سابق سوویت یونین کے زمانے میں، سوویت یونین کی اصل پالیسی یک طرفہ اور فوجی رجحان پر مبنی سیاست تھی لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد فوجی اور سفارتکاری پر مبنی پالیسی سامنے آئی جس کی وجہ سے روس مغرب خاص طور پر امریکا کو متاثر کرنے میں کامیاب رہا۔
اس عمل کے مد نظر مذکورہ کھلاڑی زیادہ سے زیادہ فائدہ اور کم خرچ کی کوشش میں ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو چیز ان کھلاڑیوں کو کشیدگی سے دور رکھنے اور پر امن طریقہ اختیار کرنے پر کا سبب بنی وہ مختلف میدانوں میں ان کا تعاون ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کے بعد روس اور امریکا کے درمیان تین طرح کا تعاون منظرعام پر آیا :
پہلا : مکمل تعاون : یہ تعاون تمام بڑی طاقتوں کے مشترکہ مفاد ہیں اور آہستہ آہستہ اس کے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تعاون کی سب سے اچھی مثال ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے مسئلے میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا : خاموش تعاون : یہ تعاون اس طرح سے ہے کہ ایک فریق تنازع میں کود پڑتا ہے اور دوسرا فریق اس کی حمایت کرتا ہے یا کم از کم اس واقعے پر خاموش ہی رہتا ہے۔ اس طرح کے تعاون کی مثال خلیج فارس کی دوسری جنگ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
تیسرا : ضمنی تعاون : آجکل علاقے میں امریکا اور روس کے درمیان تعاون اسی ضمنی تعاون کے تناظر میں ہو رہا ہے۔ اس تعاون میں دونوں ہی فریق ایک دوسرے کے حوالے سے منفی احساس رکھتے ہیں اور اسی منفی احساس کی وجہ سے ہی دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ آج اگر شام میں جنگ بندی ناکام ہوئی تو وہ اسی منفی احساس کا نتیجہ ہے۔ اس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور روس کے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنے کے مد نظر کیا دونوں طرف کی فتح- فتح کی بنیاد پر کسی سیاسی راہ حل تک پہنچا جا سکتا ہے؟
(1) در حقیقیت اگر غور کیا جائے تو دنیا کی تمام طاقتیں کم خرچ اور زیادہ فائدے کی کوشش میں ہیں۔ امریکا بھی شکت اور فتح یا زیادہ سے زیادہ فتح- فتح کی بنیاد پر واشنگٹن کے مفاد میں توازن کی کوشش میں ہے۔ امریکی سیاست دانوں نے بارہا کہا ہے کہ بحران شام کا واحد راہ حل، اقتدار سے بشار اسد کا ہٹنا ہے۔ آج شام کے مسئلہ پر امریکا جو مذاکرات کی میز پر روس کے ساتھ آیا ہے وہ صرف بشار اسد کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے موضوع پر گفتگو کے لئے ہی آیا ہے۔ واشنگٹن نے یہ بتا دیا کہ وہ شام میں ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایک طرف تو وہ بشار اسد کواقتدار سے ہٹانے اور مزاحمت کے محور کو کمزور کرنے اور علاقے میں طاقت کے توازن کو اپنے اور اپنے اتحادیوں کے حق میں کرنے کی کوشش میں ہے اور دوسری طرف وہ داعش اور کردوں کے ساتھ دوسرا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ سیکورٹی خطروں کے ذریعے شام کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے وہ داعش کا کارڈ کھیل رہا ہے اور اسی طرح وہ تقسیم اور خودمختاری کی لالی پاپ دے کر کردوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ وہ شام کے بحران میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
(2) روس اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات تک واشنگنٹن کسی پائدار سیاسی حل تک نہیں پہنچ سکتا۔ امریکا کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کا ایک سبب، اوباما کے دور صدارت میں کسی نتیجہ تک پہنچنا تھا۔ بہر حال روس کو یہ پتا ہے کہ امریکا میں نئے صدارتی انتخابات سے بحران شام کے بارے میں ممکنہ طور پر امریکا کے رویہ میں کچھ تبدیلی رونما ہو اسی لئے روس کو نئے امریکی صدر اور نئی پالیسی کی بنیاد پر بحران شام کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
مجموعی طور پر امریکا نے یہ واضح کر دیا کہ وہ موجود حالات میں بحران شام کے حل کا خواہاں نہیں ہےاور اس جنگ بندی کی خلاف ورزی اور مختلف طریقوں سے دہشت گردوں کی حمایت اس بات کا پختہ ثبوت ہے۔