الوقت - اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا ہے کہ تشدد اور انتہا پسند دہشت گردی کی توسیع، گزشتہ 15 برسوں میں بڑی طاقتوں کی سیکورٹی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران کہا کہ دہشت گرد، شام، عراق اور لیبیا میں حکومت کی تشکیل کا دعوی کرتے ہیں اور یہ گروہ انتہا پسندی اور تکفیری نظریات کی تبلیغ کرتے اور دین رحمت اور آشتی کو دہشت گردی اور تشدد کا ذریعہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور آج مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں تشدد حیرت انگیز طریقے سے تیزی سے پھیل رہا ہے اور پورے علاقے کو بے مثال تشدد نے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
صدر روحانی نے زور دیا کہ یقینی طور پر اگر ہم اس خطرناک عمل کو روکنا چاہیں اور علاقے کو ترقی اور امن کی راہ پر لگانا چاہیں تو علاقے کے بعض ممالک کو اپنے پڑوسیوں پر بمباری اور تکفیری دہشت گردوں کی حمایت روکنی پڑے گی۔
صدر حسن روحانی نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت کو اگر اپنی پیشرفت اور علاقے کی سیکورٹی کی امید ہے تو اسے اختلافات پھیلانے کی اپنی پالیسیوں، نفرت اور پڑوسیوں پر حملے کی سیاست کو ترک کرنا اور حجاج کرام کے احترام اور زندگی کی حفاظت کی اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا اور باہمی احترام اور علاقائی قوموں کے تئیں ذمہ دار ہونا ہوگا۔
صدر روحانی نے کہا کہ علاقے سے تشدد کا اختتام، جمہوریت، شہری حقوق کی حفاظت اور اقتصادی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایران ہر قسم کی فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کا مخالف ہے اور ایران کا یہ خیال ہے کہ شیعہ سنی مسلمان صدیوں سے باہمی احترام اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور اسی طرح رہیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ایران کے جوہری معاہدے کو اعتدال پسند پالیسی اور مذاکرات کی افادیت کی اچھی مثال قرار دیا اور کہا کہ امریکا کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ جوائنٹ ایکشن پلان اب ایک کثیرالجہتی دستاویز ہے اور اس کی پیروی میں کسی بھی قسم کی خلاف ورزی سے امریکا پربے اعتمادی میں اضافہ ہی ہوگا۔