الوقت - شام کے بارے میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی مفاہمت کے اعلان کو ابھی دو دن بھی نہیں گزرے کہ اس سمجھوتے کی کمزوری کا پہلا نکتہ ظاہر ہوا۔ اس بار بھی جیسی امید تھی، گزشتہ امن منصوبے یا جنگ بندی کے مطابق، اصل خلاف ورزی سعودی عرب کے حمایت یافتہ حکومت مخالف گروہوں کی جانب سے شروع ہوئی جس کا اصل مقصد اپنے مفاد کو آگے بڑھانا ہے۔
سعودی عرب کے حمایت یافتہ حکومت مخالفین کے اتحاد کے کوارڈٹیٹر ریاض حجاب نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ان کی کمیٹی شام کے مستقبل کے بارے میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والے کسی بھی سمجھوتے کو جو شامی حکومت کے مخالفین کی جانب سے پیش کی گئی تجویزوں کے خلاف ہو، قبول نہیں کرے گی۔
یہ کمیٹی شام کے بارے میں اقوام متحدہ کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات میں بھی فریق ہے اور اس نے شام کے بارے میں چند نکاتی تجویز بھی پیش کی تھی۔ اس کمیٹی نے جو تجویز پیش کی تھی اس میں سب سے اہم ملک میں چھ مہینے کے لئے عبوری حکومت کا قیام ہے جس کے دوران اپوزیشن اور حکومت کے ارکان وجود میں آنا ہے۔ اس تجویز کی بنیاد پر بشار اسد کو عبوری چھہ مہینے کے آخر میں حکومت سے ہٹ جانا ہے اور کے بعد ملک میں 18 مہینے کی حکومت بنے گی جس کی نگرانی میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس حوالے سے ریاض حجاب کا کہنا ہے کہ جس چيز پر روس اور امریکا نے موافقت کی ہے، اس میں اور شامی عوام کی خواہشوں میں بہت زیادہ فرق ہے اور ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے، اس منصوبے میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بشار اسد کو اقتدار میں کتنا رہنا ہوگا، چھ مہینہ، ایک مہینہ یک ایک روز۔ روسی اور امریکی حکام کو یہ پتا ہے، وہ شام کے عوام کی مخالفت سے آگاہ ہیں کیونکہ عوام نے بہت قربانی دی اور وہ اپنے اس مطالبے کو کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے۔
اس خلاف ورزی میں جلدی کا کیا سبب ہے؟
جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ ریاض حجاب کی سربراہی والی نام نہاد مذاکراتی کمیٹی کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور اس سے بڑھ کر اس ملک میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اس پر براہ راست نظر رکھنے کے لئے سعودی عرب نے اس کو تشکیل دی ہے اور یہی سبب ہے کہ شام کے بارے میں اس گروہ کے موقف کو ریاض کا موقف کہا جاسکتا ہے۔
اس طرح سے جیسا کہ مشخص ہے کہ سعودی عرب کے حکام اس سے بات سے راضی نہیں ہیں جس پر امریکا اور اور روس نے جنیوا میں سمجھوتہ کیا تھا۔ اس کا سبب کیا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس موضوع نے سعودی عرب کو ناراض کیا ہے وہی موضوع ہے جس پر روسی اصرار کر ہےہیں اور امریکی انکار کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کافی عرصے سے کوئي نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، اور وہ ہے انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں میں فرق کرنا اور ان کو الگ الگ کرنا ہے۔
روس اور امریکا کے درمیان مفاہمت کا مستقبل کیا ہوگا؟
گزشتہ روز ماسکو اور امریکا کے درمیان جنگ بندی کے لئے ہونے والی مفاہمت کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد، کچھ تجزیہ نگاروں نے جنگ بندی کی کامیابی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ حکومت مخالف گروہوں کو اپنے حملے روکنے کے لئے امریکا کا ان کو راضی کر لینا، ایک بڑی کامیابی ہے۔
اس جنگ بندی کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد حکومت شام نے بھی اس سمجھوتے پر اپنی موافقت کی مہر لگا دی اور طے یہ ہوا کہ پیر کی شام سات بجے سے جنگ بندی کا نفاذ شروع ہو جائے گا۔ بہر حال جنگ بندی کا اس بار کا یہ سمجھوتہ کتنا پائدار اور مضبوط رہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔