الوقت - تہران میں تعینات روس کے سفیر لوان جاگاریان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ایران سے بارہا کہا گیا کہ ایس- 300 میزائیل سسٹم کی تحویل نہ دینے کے سبب شکایت کو واپس لے لے اور اب جبکہ اس دفاعی سسٹم کا آدھا ساز و سامان ایران کے حوالے کر دیا گیا ہے، شکایت کا مسئلہ پوری طرح خارج ہو چکا ہے۔ در حقیقت موجودہ صورتحال میں اس موضوع کا پیش کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایس-300 میزائیل کی تحویل کے بارے میں ایران اور روس کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں جس کی دو دلیلیں ہیں :
بتایا جاتا ہے کہ 2007 میں ایران کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے سبب روس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پانچ ایس-300 میزائیل سسٹم ایران کے حوالے کرے۔ ماسکو نے 2010 میں اس بہانے سے ایران کو ایس-300 میزائیل سسٹم فروخت کرنا، تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر چار کے برخلاف ہے اور اسی لئے اس نے تہران کو یہ میزائیل دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ایران کی وزارت دفاع نے 80 کروڑ ڈالر کے میزائیل سمجھوتے کو مسترد کر دیا اور روس کی بین الاقوامی عدالت میں شکایت کر دی۔ ایران نے اس شکایت میں 4 ارب ڈالر کے جرمانے کا مطالبہ کر دیا اور جے سی پی او اے کے نفاذ کے ساتھ ہی روس نے اعلان کیا کہ وہ یہ دفاعی سسٹم ایران کو دینے کو تیار ہے۔ یہ سمجھوتہ ماسکو حکام کے مطابق، 2016 کے آخر تک حتمی ہو جائے گا۔ در حقیقت ایران کے خلاف پابندیوں کے سخت ہونے سے امریکی حکومت نے روس کے موجودہ حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کو ایس-300 میزائیل سسٹم نہ دے۔ البتہ یہ قدم ایران کے خلاف پابندی کے قوانین کے مطابق نہیں تھا کیونکہ پابندی کے قوانین کے مطابق جنگی ساز و سامان، ہتھیار، حملہ آور ہتھیار اور گولہ بارود ایران کو فروخت کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایس-300 میزائیل سسٹم کی ماہیت دفاعی ہے۔ اس بنا پر ایران کو میزائیل سسٹم نہ دینے کے روسیوں کے اقدامات پر ایران نے شروعات سے ہی اعتراض کیا تھا اور اس کے بعد ایران نے بین الاقوامی عدالت میں روس کی شکایت کردی اور آخرکار ایران کے حق میں فیصلہ آیا اور ایران کے حق میں مسئلہ جاری تھا کہ روس کے مواقف میں تبدیلی رونما ہوئی اور جے سی پی او اے کے نفاذ کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے ایران کو ایس-300 میزائیل فروخت نہ کرنے کے مسئلے کو مسترد کر دیا اور اس کے بعد ایران کو دفاعی میزائیل سسٹم دینے کا معاملہ پیش ہوا۔ اس اقدام کے بعد حکومت ایران نے بھی اپنی شکایت پر نظر ثانی کی اور طے یہ ہوا کہ دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے اس سمجھوتے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
در ایں اثنا علاقائی تبدیلیاں خاص طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایران اور روس کے اتحاد کے سبب ایران کے ساتھ روس کا فوجی تعاون کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ در حقیقت دونوں ممالک کا فوجی اور اسٹرٹیجک تعاون خاص طور پر شام کے مسئلے میں ان دونوں ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اعتبار سے کہ شام کے میدان جنگ اور علاقے کے ديگر بحرانوں کے سلسلے میں روس کے لئے ایران ایک قابل اعتماد اتحادی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس بنا پر تہران کو فوجی اسلحہ فروخت کرنے جیسے فوجی تعاون میں توسیع کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے زیادہ تر پڑوسی امریکا اور مغربی ممالک سے بہت زیادہ ہتھیاروں کی خریداری کر رہے ہیں اور روس ایران کو ایس-300 میزائیل سسٹم فروخت کرکے امریکا کے اتحادیوں کے طاقت کے توازن کو ختم کرنا چاہتا ہے۔