الوقت - ایسی حالت میں افغان طالبان داعش کے ساتھ کبھی ایک ساتھ نظر آتے ہیں جس میں امریکا ایک طرف اس گروہ کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ دوسری جانب کافی عرصے سے وہ اس گروہ کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ افغان حکومت بھی اسی سے مشابہ موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور وہ بھی طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اس نے بھی اس گروہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے کریڈور کھول دیا ہے۔ البتہ دونوں فریق طالبان کے حوالے سے متضاد نظریہ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں طولانی مدت تک رہنے کے بارے میں سوچنے والی امریکی حکومت، اس گروہ کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے اس گروہ سے مذاکرات کو آمادہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی شراکت، افغانستان کے اقتدار اعلی کے خلاف نہیں ہے اور اس کو طالبان کے ساتھ معاہدے کا عنصر قرار دیتا ہے لیکن افغان حکومت کبھی بھی طالبان کو باضابطہ قبول کرنے کی شرط پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کو تیار نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف طالبان نے مذاکرات کے لئے شرط رکھی ہے وہیں افغان حکومت نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے شرط رکھی ہے جس کی وجہ سے مذاکرات کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
در ایں اثنا طالبان ایک قانونی گروہ کی حیثیت سے شناخت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کو سیاسی شعبے میں شرکت کا اور حکومت حاصل کرنے کا حق حاصل ہو۔ اس بنیاد پر جب تک امریکا اور افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو سنجیدگی کے ساتھ قبول نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
افغانستان میں داعش کا وجود جو عام طور پر طالبان کے زیر تسلط علاقوں میں نظر آتا ہے، طالبان کے لئے ایک بہترین موقع ہے تاکہ افغان حکومت اور امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ در ایں اثنا امریکی حکومت نے افغانستان میں داعش کے وجود کو اپنی فوجی چھانیوں اور اس ملک میں موجود اپنے فوجی سیاست کے لئے شدید خطرہ قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے صرف طالبان ہی اس مسئلے کو کنٹرول کر سکتا ہے تاہم کابل حکومت، طالبان کو اپنی سیکورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتی ہے، داعش کے وجود کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ داعش کا افغانستان پر قبضہ ناممکن ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان کے بعض علاقوں میں داعش کا وجود میں آنا البتہ زیادہ وسیع نہیں ہے، کابل کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ سنجیدہ نہیں کر سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ طالبان اور داعش کے درمیان خطرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ طالبان افغانستان میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا ایک گروہ ہے جو افغانستان میں امارت اسلامی کے نفاذ کا دعوی کرتا ہے۔ طالبان نے اپنے تکفیری نظریات کو دوسرے ممالک میں نہیں پھیلایا ہے اور تجربات سے پتا چلتا ہے کہ ان میں مذاکرات اور مفاہمت تک پہنچنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ داعش، اصل افغانی نہیں ہیں۔ اس گروہ میں مقامی اور غیر ملکی جنگجو ہیں اور اس گروہ کی سربراہی بھی غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ افغانستان میں سرگرم داعش، داعش کے علاقائی نیٹ ورک سے وابستہ ہے، اس کا بھی خلافت کا دعوی ہے، گرچہ یہ گروہ بھی افغانستان کو ایک امارت سمجھتا ہے لیکن وہ خلافت کی قیادت میں امارت کی حیثیت سے۔
در حقیقت، طالبان ہی ایک ایسا گروہ ہے جو افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے اور اگر افغانستان میں داعش کے منصوبے کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور داعش کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہے تو اس کا اہم سبب طالبان اور طالبان کے ساتھ ان کا ٹکراو ہے۔