الوقت - مشرق وسطی کی تبدیلوں کے راستے میں اہم عناصر میں سے ایک شام کی تبدیلیوں کے حوالے سے روس اور ترکی کے درمیان واضح اور سنجیدہ مقابلہ تھا جو جنوری 2011 سے دونوں ممالک کے درمیان ٹکراو سے شروع ہوا ہے۔ یہ مقابلہ ایسا تھا کہ گویا دونوں ممالک آپس میں براہ راست جنگ کے لئے بھی آمادہ ہو گئے تھے۔
اس مقابلے میں روس نے ایران اور چین جیسے ممالک کے ساتھ بشار اسد کے بین الاقوامی اتحادی کا کردار ادا کیا جبکہ ترکی بشار اسد کی حکومت کے مخالفین مغرب اور عرب حکومتوں کے ساتھ تھا جن کا مقصد دمشق حکومت کو تبدیل کرنا تھا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے مد مقابل پوری طاقت کے ساتھ کھڑے تھے۔ جہاں ایک طرف ترکی شام کی حکومت کے مخالفین کی اصل چھاونی اور مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا تو دوسری طرف شام کی حکومت کے طاقتور بین الاقوامی اتحادی اور حامی کی حیثیت سے روس ظاہر ہوا۔ دونوں فریق کے سنجیدہ اختلافات کو سفارتی میدان خاص طور پر سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے تناظر میں، شام کے بحران کے سیاسی حل کے بارے میں اختلافات، شام میں سیاسی ڈھانچے میں رفتہ رفتہ اصلاحات کے لئے ماسکو کی حمایت اور بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کے لئے انقرہ کی حمایت، واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
در ایں اثنا ترکی کی جانب سے روس کے جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعے نے روس اور ترکی کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔ ترکی نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ روس کے جنگی طیارے سوخوئی نے ہماری فضائی سرحد کی خلاف ورزی کی، 24 نومبر 2015 کو جنگی طیارہ مار گرایا۔ روس نے ترکی کے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ حالیہ ایک عشرے کے دوران یہ پہلی بار ہے جب نیٹو کے ایک رکن ممالک روس کو جنگی طیارے کو مار گرایا گیا ہو۔ اس واقعہ سے ماسکو- انقرہ کے درمیان تعلقات مزید بحرانی ہوگئے اور آپس میں ٹکراو شروع ہو گیا۔
تاہم جیسا کے پیشن گوئی کی گئی کہ یہ عمل زیادہ عرصے تک جاری رہنے والا نہیں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ترک حکومت پر پڑنے والے اقتصادی اور داخلی دباؤ کی وجہ سے اور بحران شام کے حل کے لئے ترکی اور روس کے درمیان تعاون کی ضرورت اور دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات شروع ہونے کی اہمیت کے مد نظر، ماسکو اور انقرہ کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
اسی کے ساتھ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی زبان بھی ایک دوسرے کے حوالے سے نرم پڑنے لگی۔ اسی تناظر میں روس کے صدر ولادیمیرپوتین نے یہ بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ انہیں ترک عوام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور تمام مشکلات کی جڑ ترک حکومت ہے، ضمنی طور پر یہ پیغام دیا کہ وہ ترکی کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے خواہشمند ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ ترک حکام اپنا رویہ تبدیل کریں۔ در ایں اثنا ترک حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا بیان بھی مثبت تھا اور ترک حکام نے بھی روس کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کی توسیع پر آمادگی کا اعلان کر دیا۔
بہرحال ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر آمادہ ہوئے اور انہوں نے ماسکو کا دورہ بھی کر لیا جو دونوں ممالک کے تعلقات کی توسیع میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ترک صدر نے روس کا دورہ کرکے یورپ اور امریکا کو بھی اہم پیغام دیا ہے کہ وہ نیٹو کی رکنیت کے عوض روس کے ساتھ تعلقات کو قربان نہیں کر سکتا۔ اس سفر سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کا مقدمہ بھی فراہم ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس اور ترکی کے تعلقات، بحران شام کے سیاسی حل میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔