الوقت – افغانستان میں دس ہزار سے زیادہ داعشی موجود موجود ہیں۔ یہ بیان افغانستان کے امور میں پوتین کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے 19 اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں دیا تھا۔ ان کا یہ بیان اس بات کی علامت ہے کہ مرکزی ایشیا میں دہشت گرد اپنا گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرملن کے حکام نے اپنے میڈیا اور سیاسی موقت کو مرکزی ایشیا اور سوویت یونین سے جدا ہونے والی جہموریوں کی جانب کر رکھا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جو نہ صرف ماسکو بلکہ ایران اور اس کے اتحادی ممالک کے لئے وارننگ فائر کی منزلت میں سمجھا جاتا ہے۔
کچھ افراد کا یہ خیال ہے کہ مرکزی ایشیا میں دہشت گردی کی وبلا کئی سال حتی کئی عشرے قدیمی ہے جس کا مشاہدہ طالبان اور القاعدہ کے ظاہر ہونے سے کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں بنیاد پرستی کا مشاہدہ 1912 سے کیا گیا جو اس مسئلے کی شروعات ہے۔ اس سال مدینہ یونیورسٹی کے ایک شیخ محمد شارع نامی شخص فرغانہ وادی منتقل ہوا اور اس نے وہاں پر وہابی مذہب کے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ در حقیقت اس کا یہ قدم ریڈیکل وہابی افکار کی بنیاد رکھنے کا پہلا قدم تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد اس مدرسے کے طلبہ بدخشاں صوبے اور افغانستان کے مشرقی علاقوں کی جانب منتقل ہوئے اور وہاں پر انہوں نے مقامی حکومت تشکیل دی۔ یہ سلسلہ 1979 میں روس کے افغانستان پر حملے کے وقت تک جاری رہا۔ تاجیکستان، افغانستان اور مرکزی ایشیا کے ممالک کے تھنک ٹینک کی جانب سے جاری ہونے والے تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ طالبان اور القاعدہ جیسے گروہوں کی تشکیل کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 1912 میں بنیادی کام ہونے بعد سعودی عرب نے افغانستان پر روس کے حملے سے افراتفری سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں اپنے نظریات پھیلانا اور اپنے افکار و نظریات کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ در ایں اثنا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان سے وابستہ کچھ گروہ نیز مرکزی ایشیا کے جہادی گروپ، حزب التحریر، تحریک اسلامی تاجیکستان، تحریک اسلامی ازبکستان اور چین میں سرگرم ايگور تحریک کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی ایشیا میں اسلامی گروہوں اور تنظیموں کی موجودگی کو 5 سے 10 سال سے متعلق نہیں کہا جا سکتا۔
در ایں اثنا گزشتہ دو برسوں میں افغانتسان اور مرکزی ایشیا میں داعش جیسے بن بلائے مہان نے دستک دے دی جس نے پوری دنیا کے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ اس موضوع نے علاقے کے تمام ممالک کی نیندیں اڑا دیں۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مغربی ایشیا سے داعش مرکزی ایشیا کی جانب منتقل ہو جائے گا اور اچانک ہی قندوز، ننگرہار، ہلمند اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں داعش کا سیاہ پرچم لہرا دیا گیا۔ افغانستان اور مرکزی ایشیا میں اس خطرے کے سر اٹھانے سے افغانستان کی مرکزی حکومت کے علاوہ روس بھی بہت زيادہ تشویش میں مبتلا ہے۔
بے شک روس کے صدر ولادیمیرپوتین نے سیکورٹی لحاظ اس مسئلے کو ترجیحات میں قرار دیا کیونکہ کہ خطرہ کرملن کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ بہرحال رو نے افغانستان میں حالبہ برسوں میں جو اقدامات انجام دیئے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ روس اس مسئلے کو ہلکا نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ پوری سنجیدگی سے اس مسئلے کو آگے بڑھا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب روس داعش کے مقابلے میں اپنے اہداف کو حاصل کر لے گا۔