الوقت - گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سابق افسر انور عشقی نے جو حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات وسیع کرنے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں، ایک اعلی سعودی وفد کے ساتھ فلسطین کے مقبوضہ علاقے کا دورہ کیا۔ اس سفر نے میڈیا میں بہت زیادہ سرخیاں جمع کیں اور کافی ہنگامے کے بعد انہوں نے اپنے اس اقدام کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ انہوں نے صرف ان علاقوں کا دورہ کیا جہاں فلسطینی آباد ہیں، نہ کہ اسرائیل کا۔
انہوں نے جدہ واپسی کے وقت سبق انٹرنیٹ اخـبار کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا، صرف ان علاقوں کا دورہ کیا جہاں فلسطینی آباد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی حکام نے مجھے ان علاقوں کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی تاکہ فلسطینی قیدیوں کے حالات اور شہداء کے خاندان کے مسائل اور دکھ و آلام سے باخبر ہوں۔ اسرائیلی میڈیا نے خود ہی لکھا ہے کہ میں نے اسرائیل کا دورہ کیا کیونکہ وہ بیت المقدس کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں لیکن ہم اس شہر کو فلسطینوں کا حصہ سمجھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک عبد اللہ کی تجویز کی بنیاد پر اس شہر کا مسئلہ حل ہو ۔
اگر چہ سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے اس سابق افسر کے دورہ اسرائیل کو کچھ ذرائع ابلاغ نے پیش کیا لیکن زیادہ تر عرب میڈیا اس مسئلے میں خاموش ہی رہا ۔ در ایں اثنا کچھ ذرائع ابلاغ نے اس موضوع کی حساسیت کو برملا کیا، گویا کوئی بڑا واقعہ پیش آ گیا ہو جبکہ ایسا نہيں ہے۔ موجودہ وقت میں زیادہ تر عرب حکومتیں، صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کی خواہشمند ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فلسطینی انتظامیہ مسلسل تاکید کرتی رہتی ہے کہ وہ اسرائیل کے مقابل میں مسلحہ مزاحمت کے حق میں نہیں ہے۔ سب سے پہلے عرب ملک کی حیثیت سے مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا ۔ مذکورہ حکومت کا دعوی ہے کہ سینا جیسے علاقوں میں دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لئے اسے اسرائیل کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اسی لئے مصر کے وزير خارجہ نے بھی دو ہفتے پہلے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا اور اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی۔ اردن، ٹیونس، مغرب، موریتانیہ، قطر جیسے ممالک کو اس فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
در ایں اثنا سعودی عرب جیسے ملک ہیں جنہوں نے اس راستے میں بہت تیزی سے قدم بڑھایا۔ شاہ عبد اللہ کی موت کے بعد برسر اقتدار آنے والے نئے حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتر کے لئے اپنے اقدامات کی توجیہ پیش کی۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ ایران کی نام نہاد مداخلت سے مقابلہ کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ سعودی عرب جیسے کچھ ممالک کا دعوی ہے کہ ایران، عرب ممالک کے داخلی مسائل میں مداخلت کرتا ہے جبکہ ایران کے حکام کا کہنا ہے وہ کسی بھی ملک کے داخلی مسائل میں نہ تو مداخلت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی ملک کو مداخلت کی اجازت دیں گے۔ سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے ملک کی حالیہ پالیسیوں کے مقابلے میں امریکی حلقوں کی ناراضگی کے سبب وہ یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ریاض کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن و صلح اتنی زیادہ کامیاب ہو سکتی ہے جو حالیہ جنگوں میں حاصل نہیں ہو سکی۔ سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مصر کے دو جزیروں تیران اور صنافیر سے اقتصادی فائدہ اٹھانے میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات جو عالم اسلام سے دشمنی کے مترادف ہے، سعودی عرب، فلسطین اور علاقے کو ممالک کے لئے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ سعودی عرب کی پالیسی میں یہ تبدیلی، اسرائیل میں بڑھتے انتہا پسند کو کس حد تک روک سکتا ہے؟
بہرحال اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرکے ممکن ہے سعودی عرب کو داخلی، خارجی، عربی اور اسلامی خطروں کا زیادہ سامنا ہو۔ یہ بات اہم نہیں ہے عرب ممالک اسرائیل کو کیا دیں گے لیکن اہم یہ ہے اسرائیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عربوں کے ساتھ صلح کرکے اس علاقے کے مظلوم عوام کا قتل عام کرے گا اور مقبوضہ علاقے میں اپنے اہداف کو آگے بڑھائے گا اور علاقے میں مزید خون خرابہ بڑھے گا اور اسرائیل کے مفاد پورے ہوں گے۔