الوقت – ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے گزشتہ کئی دنوں کی تبدیلیوں پر ایران کی جانب سے متعدد رد عمل سامنے آئے ہیں اور عوام نے سڑکوں پر نکل کر کشمیر کے عوام کی حمایت میں مظاہرے کئے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے بھی ایک انٹرویو میں حکومت ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری مخالفین سے مقابلے میں انسانی مسائل پر خاص توجہ دیں اور سختی کے عمل سے پرہیز کریں۔ اسی کے ساتھ ایران میں سوشل میڈیا پر بھی اس مسئلے کو خاصہ اہمیت دی گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
کچھ ٹی وی چینلوں نے جن کو مذہبی اور انقلابی افراد کی جانب سے چلایا جاتا ہے، کچھ کشمیری رہنماؤں کے انٹرویو نشر کئے جس کے دوران کشمیر کی پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کو نہ صرف جھڑپ قرار دیا گیا بلکہ ایک انتہا پسند گروہ کے ایک قوم پر وسیع حملے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ذریعے سے ان افراد نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ القاعدہ اور داعش جیسے انتہا پسند گروہ سے مقابلہ نہیں ہے لیکن کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ حکومت ہندوستان نے کشمیر میں کیوں سخت فوجی کاروائی شروع کر دی اور ان دنوں پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جن لوگوں پر مظالم ہو رہے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟
1- کشمیر، ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایک خوبصورت اور سرسبز علاقہ ہے۔ یہاں کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد شیعہ ہے اور ایران کی حامی ہے، یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے تمام شہری شیعہ مسلمان نہیں ہیں اور ایران کے حامی بھی صرف شیعہ ہی نہیں ہیں بلکہ کشمیر میں جہاں بھی شیعوں کی تعداد ہے، تقریبا سبھی ایران کے انقلاب اور رہبر انقلاب اسلامی کے حامی ہیں لیکن اسی کے ساتھ اس علاقے میں اور علاقے کی دوسری جگہوں پر بھی شیعہ اور سنی دونوں ہی اس مسئلے میں مشترک ہیں۔ یہاں کے اہل سنت بھی ہمیشہ سے ایران کے حامی رہے ہیں اور اس طرح سے تمام ایران کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ جہاں بھی شیعہ اور سنی ایک ساتھ رہتے ہیں ان کے درمیان مقابلہ آرائی بھی تیز ہے لیکن حالیہ 70 سال سے کم وقت میں دونوں فرقوں کے درمیان بہت کم ہی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
2- اس خونریز جھڑپ میں ہندوستان کی حکومت کا کردار ہوتا ہے؟ ایران میں موجود کچھ افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ ہندوستان کی حکومت در ایں اثنا ان انتہا پسندوں سے جنگ میں مشغول رہتی ہے جو سب سے زیادہ مسلمانوں اور خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہندوستان کی حکومت کا قدم نہ صرف برا ہے بلکہ قابل تحسین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 70 برس سے ہندوستان کی حکومت یا کشمیر کی مقامی حکومت کو کئی جنگوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جو ہمیشہ سے جارحیت کے زمرے میں رہی ہے۔ اگر جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کے درمیان 1947 میں ہو معاہدہ ہوا تھا اس پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان کو تقریبا 65 سال پہلے اس سرزمین کو چھوڑ دینا چاہئے تھا اور اس علاقے کے عوام کو اجازت ہونی چاہے کہ وہ آزاد ریفرنڈم میں شرکت کرکے اپنے مستقبل کا تعین کریں۔ یا وہ آزاد ہو جائیں یا پاکستان کے باقی مسلمانوں کے ساتھ پاکستان میں ملحق ہو جائیں۔
اس طرح کا ریفرنڈم کشمیر کے کسی بھی علاقے میں منعقد نہیں ہوا اور ہندوستان نے بھی کبھی بھی کشمیر کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا۔ البتہ دسیوں سال پہلے ہونے والی تحقیق کی بنیاد پر کشمیری کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں پاکستان کا انتخاب نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہندوستان کی فوج پوری شدت سے ایک ایسے گروہ کی سرگرمیوں کی سرکوبی میں مشغول ہے جن کے گھر ان علاقوں میں ہیں اور جو اپنی خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان کی فوج کو ایسے افراد کی سرکوبی کا کوئی حق نہیں ہے ۔
3- کشمیر میں سرگرم انتہا پسندی کس معنی میں ہے؟ اس سوال کا جواب بہت اہم ہے۔ کیونکہ ایک طرف ہر ملک اور ہرقوم دوسرے ملک اور دوسری قوم کے مقابلے میں بہت الگ ہیں اور دوسرا یہ یہ ہر حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو اس طرح کے الفاظ سے خطاب کرے۔ ہندوستان میں انتہا پسندی کا مطلب ہندوستان کے ساتھ نہ رہنے کو مسترد کرنا ہے۔ اسی لئے مخالفین کے لئے اس طرح سے الفاظ کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ بہر حال کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلم مخالف سرگرمیاں ہیں جس کا اہم مقصد اس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی شناخت اور ان کی پہچان کو ختم کرنا ہے۔
بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف، دنیا میں مظلوم عوام کی حمایت کرنا ہے اور اسی تناظر میں وہ فلسطین، یمن، عراق اور کشمیر کے عوام کی حمایت کرنا ہے اور اس علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایران کے اس قدم کو کسی بھی ملک کے داخلی مسئلے میں مداخلت سے تعبیر نہيں کیا جاسکتا۔