الوقت - سعودی عرب کے تخت پر شاہ سلمان بن عبد العزیز کے بیٹھنے کے بعد اس ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں قابل توجہ تبدیلیاں مشاہدہ کی گئیں جن میں سے سب سے اہم آل سعود کی قیادت میں اساسی تبدیلی ہے۔
شاہ سلمان نے اپنی حکومت کے شروعاتی دور میں ہی ملک کے وزیر داخلہ محمد بن نائف کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ اس کے لئے انہوں نے شہزادہ مقرن کو ملک عبد اللہ کی مرضی کے برخلاف عہدے سے ہٹا دیا۔ اس طرح سے انہوں نے شاہی خاندان کی دوسری نسل کی ناراضگی کا سامان مہیا کیا اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو وزارت دفاع اور نائب ولی عہد کا عہدہ سونپ دیا۔ اس طرح سے اقتدار کی باگ ڈور ان دونوں وزیروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ ان میں سے ہر ایک، نئی بنی دو کونسل یعنی اقتصادی اور پیشرفت امور کی کونسل اور سیاسی و سیکورٹی امور کی کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے جو ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی مقرر کرتی ہے۔ اگر چہ محمد بن سلمان اپنے والد کی بھر پور حمایت سے ملک کی اگلی سیاست کو معین کرنے میں اہم کردار ادا کر رہےہیں۔
در ایں اثنا حالیہ عشرے کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے، عرب تحریکوں اور ایران کے ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے علاقے کے اقتصادی حالات میں کسی حد تک پیشرفت ہوئی ہے۔ علاقے میں زیادہ تر جیوپولیٹکل کردار ادا کرنے میں ایران کے ساتھ سعودی عرب کی رقابت کی وجہ سے، پہلے سے زیادہ طاقت کے توازن کا سبب بنا جو 2003 میں عراق پر حملہ کے بعد وجود میں آیا۔ ان نئے حالات کے مد نظر، سعودی عرب کی نئی قیادت نے سب سے پہلے خطروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس کے تحت داخلی سیاست کو تبدیل کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے مشرق وسطی کے تپتے ماحول پر سوار ہوکر اپنی گستاخانہ اور حملہ آور پالیسیاں آگے بڑھا سکے۔ داخلی پہلو کے اعتبار سے، اس مدت میں سعودی عرب نے داخلی اصلاحات کے لئے ہر طرح کی سرکوبی کی اور اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبا دیا۔ اس اعتبار سے شاہ سلمان نے نوکری کے مواقع پیدا کرنے، تنخواہوں میں اضاف اور ترقی کے منصوبو کے لئے 130 ارب ڈالر مخصوص کر دیئے۔ اس کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد انہوں نے عوام کے لئے 30 ارب ڈالر کی سبسڈی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کابینہ میں تبدیلی کرکے ہر فوجی اور سیکورٹی اہلکاروں کو ایک مہینے کی تنخواہ کے برابرسبسڈی دے دی۔ یہ اقدامات اس بات کی علامت ہے کہ یہ حکومت، ملک کے اندر ہر طرح کی تبدیلی اور اصلاحت میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سیاست خارجی کے لحاظ سے 2011 میں عرب تحریکیں سعودی عرب کے لئے مسائل سمجھی جاتی ہیں کیونکہ سعودی عرب کی داخلی اور خارجہ پالیسی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ سعودی عرب نے مصر کی فوجی حکومت کی فورا ہی حمایت کر دی اور فوجی حکومت کو اخوان المسلمین کی حکومت پر ترجیح دی کیونکہ سعودی عرب عرب تحریکوں کے نتائج سے خوفزدہ تھی اور اسے ملک کے مشرقی علاقوں میں حکومت مخالف تحریکوں کے پیدا ہونے کا خوف تھا۔ خلیج فارس کے ساحلی علاقوں میں سعودی عرب نے ساری توجہ انقلابوں کے پھیلاؤں کو روکنے پر ساری توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے علاوہ بحرین اور عمان کی حکومتوں کے لئے اقتصادی پیکج، 2011 میں بحرین کے عوام کی سرکوبی اور 2015 میں یمن کے عوام پر وسیع حملے، سعودی عرب کی پہل اور ریاض کی قیادت میں ہوئے۔ اسی طرح ریاض نے شام کی حکومت کی سرنگونی کے لئے اس ملک میں سرگرم دہشت گردوں کی بھرپور حمایت کی۔ بہر حال سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے اپنے فوجی اور مالی وسائل کا بھرپور استعمال کیا اور علاقے کو فرقہ واریت کی جنگ میں چھونک دیا۔