الوقت - عثمانی سرزمین پر پانچویں بغاوت ایسی حالت میں ہوئی ہے کہ ابھی حال میں انقرہ حکومت نے روس کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہیں اور اس چيز پر عمل در آمد شروع بھی ہو گیا۔ دوسری جانب غزہ کے عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد لے جا رہے امدادی کارواں مرمرہ پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کو رجب طیب اردوغان کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کے مسئلے کے سبب انقرہ اور تل اویو کے درمیان تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔
ترکی کے امدادی کارواں پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں انسانی حقوق کے 10 کارکن ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح شام کے حوالے سے ترک حکومت کے مواقف میں تبدیلی اور حکومت کی منتقلی کے لئے بشار اسد کو چھ مہینے کا موقع دیا جانا، ان مسائل میں سے تھے جن پر 15 جولائی 2016 کی فوجی بغاوت سے قبل ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹیی کی جانب سے توجہ دی گئی۔ ان مسائل کے مقابلے میں ترک میڈیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے انجام پانے والی تمام ملاقاتوں اور مذاکرات کو برملا کیا اور شائع کیا۔ ان خبروں کا جاری ہونا، ماسکو اور تل اویو کے ساتھ ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے تناظر میں حکومت کے مواقف کی تائید کے تحت تھا۔
اگر انہیں اخباروں اور جریدے کے مقابلے اور سرخیوں پر توجہ دی جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے کم و بیش ان مسائل پر توجہ دی اور اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے انقرہ کی کوششوں کو بہت ہی کم اہمیت دی گئی۔ اب کچھ افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں امریکا اور ترکی کے تعلقات کے حوالے سے روزانہ خبروں کے زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اس بات کے مد نظر کے انقرہ اور استانبول میں امریکی سفارتخانے نے کچھ مہینے پہلے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر امریکا نے اپنے شہریوں کو ترکی کے سفر کی بابت خبردار کیا تھا اور سیکورٹی کو ہائی کر دیا تھا۔
امریکا کے اس قدم سے ترک حکام بری طرح ناراض ہوگئے حتی ترک وزیر اعظم بن علی یلدیریم نے اپنے بیان میں بالواسطہ اپنے ملک کو دنیا اور علاقے کا سب سے امن ترین علاقہ قرار دیا تھا۔ ابھی یہ مسائل جاری ہی تھے اور ترک میڈیا ملک میں جاری کشیدگی کے بارے میں گفتگو میں مصروف تھی اور اردوغان اپنے ایوان صدر میں آرام میں مشغول تھے کہ اچانک رات میں فوجیوں کی تحریک کی خبروں نے سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ ترک عوام کو خبر ملی کی فوج کا ایک دستہ سڑکوں پر نکل آیا ہے اور اس نے سڑکوں، ہوائی اڈوں اور میڈیا کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور سڑکوں پر فوجی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تعینات ہو گئیں ہيں۔
اب ترک عوام کے سمجھ میں آ گیا کہ ترکی کی تاریخ میں پانچویں فوجی بغاوت رونما ہوگئی۔ اس بات سے قطع نظر کے فوجی بغاوت میں حکمراں جماعت ملوث تھی یا یہ کے فوجی حکمراں جماعت کے فیصلوں اور مواقف سے ناراض تھے اسی لئے انہوں نے علم بغاوت بلند کر دیا، اس فوجی بغاوت کے پہلوؤں پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ فوجی بغاوت کو وجہ بنا کر ترک حکومت نے ملک کے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا ۔
اب ترک حکومت کا یہ فیصلہ کہاں تک اور کس حد تک صحیح ہے یہ تو بعد میں ہی پتا چلے گا لیکن ایک نام نہاد فوجی بغاوت کی بھینٹ چڑھ کر ہزاروں ملازمین کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے حکمراں جماعت فوجی بغاوت کو بہانہ بناکر ملک کے آئین میں تبدیلی اور آئین کو اپنے مفاد میں تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔