الوقت - موجودہ وقت میں عراق میں حشد الشعبی، داعش سے مقابلے کے میدان میں ایک اہم فورس سمجھی جاتی ہے۔ حشد الشعبی یا رضاکار فورس کی تشکیل کا موضوع ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیشہ محققین اور تجزیہ نگاروں کی نظر رہی ہے۔ آج ہم حشد الشعبی کی تشکیل اور عراق کی حالیہ تبدیلیوں پر اس کے پڑنے والے اثرات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
عراق کے بزرگ عالم دین اور مرجع تقلید آيت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے 13 جون 2014 کو عراق کے تمام مسلمانوں کو داعش کے خلاف جنگ یا حہاد کی دعوت دی۔ اس اپیل کے بعد وسیع پیمانے پر عراق کے شیعہ مسلمان رضاکار فورس میں شامل ہوئے اور وہ سب حشد الشعبی کے زیر پرچم جمع ہوگئے۔ حشد الشعبی میں شامل رضاکار دستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں مختلف طبقات اور سیاسی نظریات کے افراد شامل ہیں۔ یہ تنوع رضاکار دستے کے درمیان سیاسی اور فکری لحاظ سے اتحاد کا سبب بنا۔ آئیے رضاکار فورس یا حشد الشعبی کے بارے میں تفصل سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1- سرایا السلام :
سرایا السلام یا سلام بریگیڈیئر، مقتدی صدر کی جیش المھدی فورس ہی ہے جس نے 2007 میں اپنے رہنما کی ہدایت پر اپن فوج سرگرمیاں ختم کر دیں تھیں۔ یہ دستہ بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے جہاد کے فتوی کے دو دن بعد نئی شکل میں ظاہر ہوا جس میں دسیوں ہزار مسلح افراد شامل ہیں۔اس دستے کو عراق میں مقتدی صدر کی فوجی ونگ کہا جا سکتا ہے۔ سلام بریگیڈیئر نے نجف اشرف اور کربلائے معلی میں مقدس مقامات کی حفاظت اور عراق میں غیر ملکی جارحین کے خلاف جنگ کو اپنا اصل مقصد قرار دیا ہے۔ مقتدی صدر فوجیوں نے 2003 سے 2007 تک اپنی بے پناہ فوجی توانائی کا مظاہرہ کیا اور اب بھی ان کے پاس سے بہت زیادہ فوجی طاقت ہے۔
2- بدر تنظیم (فوجی ونگ)
بدر تنظیم 2012 میں حشد الشعبی کے کمانڈر ہادی العامری کی قیادت میں تشکیل پائی اور موجودہ وقت میں حشد الشعبی کا اہم حصہ تصور کی جاتی ہے۔ رضاکار فورس کے دستے کی عوام میں بہت زیادہ مقبولیت ہے۔ موجود وقت میں بدر تنظیم، حشد الشعبی کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کے فوجیوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے۔
3- حزب اللہ عراق بریگیڈ :
2003 میں عراق پر امریکی فوجیوں کے حملے سے کچھ مہینہ پہلے ہی حزب اللہ عراق بريگیڈ تشکیل پائی تھی۔ شروعات میں اس تنظیم کا نام ابو الفضل العباس بریگیڈ تھا لیکن 2007 میں اس نے باضابطہ اپنا نام حزب اللہ رکھ لیا۔ حزب اللہ کے جوان امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور سید محمد باقر صدر کےمقلد اور پیروکار ہے۔ گرچہ یہ تنظیم حزب اللہ لبنان سے بہت نزدیک ہے لیکن اس کی بناوٹ پوری طرح سے ایک دوسرے سے جدا ہے لیکن دونوں کا ہدف ایک ہی ہے۔ اس تنظیم کا اص مقصد عراق کی سرحد پرتمام غیر ملکی فوجیوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس تنظیم کی پہلی کاروائی 2003 میں بغداد میں امریکی فوجی کارواں پر حملہ تھی۔
4 - عصائب اہل حق یا اہل حق بریگیڈ :
یہ دستہ جیش المھدی کا ہی ایک حصہ ہے اور 2007 میں فوجی سرگرمیوں کے بند ہونے پرمبنی مقتدی صدر کے فرمان کے بعد یہ گروہ الگ تصور کیا جانے لگا اور قیس الخزعلی اور شیخ اکرم الکعبی اس گروہ کے کمانڈر ہیں۔ حشد الشعبی میں اس گروہ کو سب سے زیادہ انتہا پسند اور تیز و گروہ کہا جا سکتا ہے۔ اس گروہ نے حالیہ برسوں میں امریکی فوجیوں کے خلاف بھی کئی کاروائیاں انجام دیں ہيں۔ اس گروہ میں شامل فوجیوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے۔
5 - خاندانوں کی تحریک حزب للہ :
یہ تنظیم 2011 میں مجلس اعلی اسلامی کے رکن حسن ساری کی قیادت میں تشکیل پائي۔ اس تنظیم نے آیت اللہ سیستانی کے جہاد کے فتوی کے بعد خاندانوں کی تحریک حزب کے نام سے میدان جنگ میں قدم رکھا۔ اس کے رضاکاروں کی تعداد تقریبا 3 ہزار ہے۔
6 - جناح بريگیڈ :
یہ تنظیم آیت اللہ سستانی کے فتوی کے بعد کاظم حائری کی قیادت میں تشکیل پائی، اس میں تقریبا 2 ہزار رضاکار ہیں۔
7 - خراسانی بریگیڈ :
اس کی تشکلی 2013 میں ہوئی اور اس کےسربراہ علی الیاسری ہیں۔ اس کے رضاکاروں کی تعداد تقریبا 3 ہزار ہے۔
8 - عاشورا بریگيڈ :
یہ تنظیم آیت اللہ سستانی کے فتوی کے بعد تشکیل پائی اور مجلس اعلی اسلامی کی فوجی ونگ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں 5 ہزار سے زائد رضاکار ہیں۔
بہرحال عراق میں موجود رضاکار دستوں کی تشکیل اور تعداد سے پتا چلتا ہے کہ ان میں فکری اور سیاسی لحاظ سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تمام دستے اور رضاکار ایک ہی محاذ پرہیں۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حشد الشعبی کی تشکیل کا اصل ہدف غیرملکی اور داخلی خطروں سے ملک کی حفاظت کرنا ہے۔