الوقت - ڈیلی ٹیلگراف نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان سے قریب کچھ افراد کئی عشروں سے مناسک حج کے دوران منشیات کی اسمگلنگ کرتے آ رہے ہیں۔
انگریزی زبان کے اخبار ڈیلی ٹیلگراف کے مطابق سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ایک سیکورٹی عہدیدار کی گرفتاری کے ساتھ ہی اس راز سے پردہ اٹھا ہے۔
اس اخبار کے مطابق اس افسر نے اس سے پہلے بھی یہ بات کہی تھی کہ سعودی عرب میں حج کی آڑ میں طویل عرصے سے منشیات کی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔
منشیات کی اسمگلنگ سے مقابلہ کرنے والے دفتر میں ملازم میجر ترکی بن حمزہ الرشيدی نے بتایا کہ سعودی عرب کے شاہی گھرانے سے قریبی تعلقات رکھنے والے افراد کا ایک گروہ طویل مدت سے حج کے دوران مختلف روشوں سے منشیات کی اسمگلنگ سے اربوں ڈالر کما چکا ہے۔
اس سعودی افسر نے کہا کہ پختہ ثبوت اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے کچھ سینئر افسر، منشیات کی اسمگلنگ جیسی برائی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے اس بارے میں تحقیقات شروع کی تو مجھ کو دھمکیاں دی گئیں اور بعد میں سعودی عرب کی شمالی سرحد کی جانب میرا ٹرانسفر کر دیا گیا۔
الرشيدی نے یو ٹیوب پر بتایا ہے کہ کس طرح سے حج کے دوران سعودی عرب میں منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اسمگلنگ کا کام اس طرح کیا جاتا ہے کہ حاجیوں کو اپنی کسٹم سے ان بسوں سے مکہ مکرمہ لے جایا جاتا ہے جن کے پاس قانونی کاغذات ہوتے ہیں۔ بعد میں انہی دستاویزات کی بنیاد پر منشیات سے بھری بسوں کو جو ہر طرح سے پہلے والی بس جیسی ہوتی ہے ملک کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ اس خوف سے کہ کہیں انکشاف نہ جائے بسوں کے رنگ، ان کی کرسیوں کے رنگ اور دیگر تمام چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں جن کی وجہ کوئی شک بھی نہیں کر سکتا۔
الرشيدی نے بتایا کہ دسیوں سال سے اسمگلنگ کا یہ دھندھا اسی طرز پر چل رہا ہے۔ اس طرح حج کے دوران سیکڑوں بسیں، ہزاروں بار اس روش سے اپنا کام کرتی آ رہی ہیں۔
انہوں نے واضح الفاظ میں بتایا کہ منشیات کی اسمگلنگ میں سعودی عرب کے سینئر افسران ملوث ہیں۔ اخبار ڈیلی ٹیلگراف کے مطابق سعودی عرب کی وزارت داخلہ میں کام کرنے والے اس شخص پر بے بنیاد الزامات عائد کرکے وزارت سے نکال دیا گیا۔
ترکی بن حمزہ الرشيدی نے بتایا کہ یہ کام اتنی صفائی سے کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ تیس برسوں سے کسی کو اس کا پتہ نہیں لگ سکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب جبکہ میں نے اس کا پتہ لگا لیا ہے اس لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت مجھے قتل کیا جا سکتا ہے۔