الوقت - ہندوستان میں مسلم مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف جمعرات کو ممبئی میں احتجاج ہوا۔ مظاہرین نائیک کی تقاریر اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ممبئی میں ذاکر نائیک کی فاﺅنڈیشن کے دفتر کے باہر پولیس کو تعینات کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث دہشت گرد روہن امتیاز، جو کہ عوامی لیگ کے ایک رہنماء کا بیٹا تھا، نے گزشتہ سال فیس بک پر ذاکر نائیک کا حوالہ دیا تھا۔
اسی درمیان حکومت ہندوستان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مسلم مبلغ ذاکر نائیک کے خلاف کارروائی پر غور کر رہی ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ کرن ریجیجو نے کہا ہے کہ یہ قانون اور اس سے وابستہ ایجنسیوں کی مناسب کارروائی کا معاملہ ہے۔ كرن رجيجو نے دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ ذاکر نائیک کی تقریر ہمارے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ ہماری ایجنسیاں اس پر کام کر رہی ہیں لیکن ایک وزیر کی حیثیت سے میں یہ تبصرہ نہیں کروں گا کہ کیا کارروائی کی جائے گی۔ نئے مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات ایم وینکیا نائیڈو سے جب نائیک کی تقاریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ان سارے پہلوؤں کے مطالعہ کا وقت ہے۔
گزشتہ دنوں ڈھاکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ملوث پانچ بنگلا دیشی دہشت گردوں میں سے ایک کے ذاکر نائیک کی تعلیمات سے متاثر ہونے کی خبریں سامنے آنے کے بعد حکومت نائیک کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کر رہی ہے۔
دوسری طرف شیوسینا نے نائیک کے ادارے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ممبئی کے اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کے بانی ذاکر نائیک، ایک مقبول لیکن متنازعہ عالم دین ہیں۔ ان پر دیگر مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے والی تقاریر کرنے کی وجہ سے برطانیہ اور کینیڈا میں پابندی ہے۔ وہ ان 16 علماء کرام میں سے ایک ہیں جن کے خلاف ملائیشیا میں پابندی عائد ہے۔